آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدہ دل کی بے انت شاہی میں ہم
زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
اپنے خوابوں ، خیالوں کی جاگیر کو
فکر کے موقلم سے تراشی ہوئی
اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو ، اپنی تقدیر کو
یوں سنبھالیں گے ، مثلِ چراغِ حرم
جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
پہرہ داروں کی صورت چھپائے رکا ہے
جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم ، پھر ارادہ کریں
جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں
جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں
جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں
جتنے چہروں کے مرجان زرد اب ہیں
جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں
جتنے گل رنگ مہتاب گہنا گئے ،
جتنے معصوم رخسار مرجھا گئے
جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں
سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں ، تازگی بخش دیں
بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم
مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم
دیدد و دل کی بے انت شاہی میں ہم
زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لیے
اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل
صرف آرائشِ پیرہن کے لیے ،
مسکرائیں گے رنج و غم دہر میں
اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لیے
طعن احباب ، سرمایہ کج دل ، بجز اغیار سہہ لیں گے
فن کے لیے
آؤ وعدہ کریں
سانس لیں گے متاع سخن کے لیے
جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم
آسمانوں سے اونچا رکھیں گے علم
آؤ وعدہ کریں