دبائے پھرتے ہو جنگل میں خشک چنگاری
الاؤ بن کے یہ بھڑکی اگر تو کیا ہوگا
ہے آج اس کی گواہی پہ فیصلہ سچ کا
اُسے عزیز ہوا اپنا سر تو کیا ہوگا
تمام عمر چلے ہیں تمہاری یاد کے ساتھ
اکیلے کرنا پڑے گا سفر تو کیا ہوگا
بھُلا تو دیتے اسے ہم مگر یہ خوف رہا
ہمیں نہ بھول سکا وہ اگر تو کیا ہوگا
ڈرا ڈرا کے جسے شاہِ وقت رکھتا ہو
وہی رعایا بنی جب نڈر تو کیا ہوگا