اچھے کبھی برے ہیں حالات آدمی کے
پیچھے لگے ہوئے ہیں دن رات آدمی کے
رخصت ہوئے تو جاناسب کام تھے ادھورے
کیا کیا کریں جہاں میں دو ہاتھ آدمی کے
مٹی سے وہ اٹھا ہے ، مٹی میں جا ملے گا
اڑتے پھریں گے اک دن ذرات آدمی کے
اک آگ حسرتوں کی ،سوچوں کا اک سمندر
کیا کیا وبال یا رب ، ہیں ساتھ آدمی کے
اس دور ارتقا میں منذر قدم قدم پر
پامال ہو رہے ہیں جذبات آدمی کے