عزم راسخ ہو تو سیلاب بھی ٹل جاتے ہیں
مستعد شخص کے حالات بدل جاتے ہیں
عمر بھر دل میں کھٹکتے ہیں جو کانٹوں کی طرح
وہی سائے ہی تو جسموں کو نگل جاتے ہیں
کھیت پکتے نہیں سورج کی حرارت سے مگر
دل کی آہوں سے تو پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
٭٭٭
قبا بدلی، رِدا بدلی، نوا بدلی، اَدا بدلی
مزاجِ مستقل کی پر کہاں خوئے وفا بدلی
ہزاروں سال سے تھا خون رائج خون کا بدلہ
مگر خون تیرے سَر آیا تو قاتل کی سزا بدلی
جہاں کے خار زاروں پر گلستانوں کا رُوپ آیا
تِرے آنے پہ صحر ا کے مکینوں کی ادا بدلی
بدن فصلِ بہاراں کا تناور پیڑ بن جائے
برس جائے اگر دل پہ محبت کی ذرا بدلی
کبھی اہلِ کرم تھے اب جو ازہرؔ ظلم ڈھاتے ہیں
بدلتے موسموں کے ساتھ ہی رسمِ وفا بدلی