ساقئ بادۂ صافی کو منانے جائیں
قسمتِ خُفتہ و مدہوش جگانے جائیں
تکیہ انداز ہیں جو کب سے حریمِ جاں میں
دُردِ شافی سے ہی وہ روگ پُرانے جائیں
تیری خوشبو سے معطّر ہے مشامِ مستاں
وقت جتنا بھی کٹے، جتنے زمانے جائیں
ہم سے مجذوب تو مرفوعِ قلم ہوتے ہیں
شیخِ اَشیاخ کو یہ بات بتانے جائیں
دُشمناں گوش بہ آواز ہیں، محبوب! کہو
کیا انہیں تیرے تبسمؔ کے فسانے جائیں