ج: اس سے پہلے فرشتے جنات کے کرتوت دیکھ چکے تھے ہو سکتا ہے اس سے انہیں انسان کے بارے میں بھی یہی اندیشہ ہوا ہو۔جنات نے(قرآن میں) اپنے بارے میں جو بیان دیا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے ہاں خیر و شر کا شعور بھی ہے اور حق و باطل کی کشمکش بھی ان کے ہاں نیک بھی ہیں اور ان کے ہاں حق سے انکار کرنے والے بھی ہیں۔ ان کے ہاں سرکش بھی ہیں اوراطاعت گزار بھی۔یعنی جیسی صورت ہمیں درپیش ہے ویسی ہی انہیں درپیش ہے ۔سورہ رحمان میں قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے لیے بھی جنت ہے اور جہنم بھی ۔ گویا وہ بھی امتحان میں ڈالے گئے ہیں اور ایک دوسر ے مقام پر واضح کر دیا کہ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے ہیں اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ہیں۔اس وجہ سے فرشتوں کو اندیشہ ہواکہ یا اللہ آپ جنات کو جانتے ہیں ان کے پاس اختیار ہے، جس طرح وہ اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں اس طرح انسان کے بارے میں بھی احتمال ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طرح کے لوگ ہیں ایک وہ ہیں کہ جن کا معاملہ حق پرستی کے معاملے میں بالکل واضح ہے انہوں نے حق کو اختیارکیا ، اس کے تقاضے پورے کیے اور دین میں سبقت کے ساتھ زندگی بسر کی جیسے انبیا ہیں صالحین ہیں تو ان کے لیے دنیا سے رخصت ہونے کے فورا ًبعد اللہ کی نعمتیں شروع ہو جاتی ہیں وہ اگرچہ اس جسمانی وجود کے ساتھ تو نہیں ہوتیں لیکن ہوتی ضرور ہیں۔ قرآن نے کہا ہے کہ ایک طرح کی برزخی زندگی ہوتی ہے جس کا تم شعور نہیں رکھتے ۔اس میں اللہ ان کو رزق دیتا ہے، نعمتیں دیتا ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے ان کی سرکشی واضح ہوتی ہے ۔وہ خدا کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں جیسے فرعون ہے ابوجہل ہے تو ان کے لیے موت کے ساتھ ہی اللہ تعالی کا عذاب شروع ہو جاتا ہے ۔جس طرح فرعون کے بارے میں قرآن میں کہاگیا کہ اسے صبح شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد درمیانی لوگ ہیں اور ظاہر ہے کہ انہی کی بڑی تعداد ہے تو ان کے بارے میں قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتاہے اور یہ آیت بھی جس کا آپ نے حوالہ دیا انہی آیات میں سے ہے کہ وہ سب سلا دیے جاتے ہیں ، قیامت میں اٹھیں گے اور پھر ان کا مقدمہ پیش ہو گا ، پھر اس مقدمے کے لحاظ سے ان کا اعمال نامہ سامنے آئے گا ۔ اس کے بعد اتمام حجت کیا جائے گا کہ جو کچھ بھی فیصلہ کیا جارہا ہے وہ بالکل مبنی برحق ہے تب ان کے بارے میں فیصلہ ہو گا تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے تینوں چیزیں اپنی جگہ الگ الگ ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ دنیا امتحان کے لیے بنی ہے اور اس میں اللہ نے انسان کو یہ مہلت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ حق پرستی اختیار کرتا ہے یا سرکش ہو جاتا ہے ۔ قرآن نے ذوالقرنین کے واقعے میں اس بات کو بیان کیا ہے ۔ اس کی غیر معمولی بادشاہی اور فتوحات کا نقشہ کھینچا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ہم نے اس کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ چاہے تو لوگوں کو عذاب میں مبتلا کرے چاہے ان کے لیے کرم کا باعث بن جائے۔ یعنی اللہ نے انسان کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ اپنی طاقت اور برتری کا استعمال جیسے چاہے کرے ۔ وہ انسانوں کے لیے کرم کا باعث بنتا ہے یا ان کوعذاب میں مبتلا کرتا ہے۔دونو ں راستے موجود ہیں۔ انسان کو انفرادی یا اجتماعی سطح پر جب قوت حاصل ہوتی ہے تو وہ عموماً سرکشی ، ظلم اور ناانصافی کارویہ اختیار کرتاہے۔مال و دولت اور قوت کی عمومی نفسیات یہی ہوتی ہے کہ وہ اخلاقی حدود سے بالاتر ہوجاتے ہیں۔محض اللہ کے کرم اور توفیق ہی سے انسان مال و دولت اور قوت کے ہوتے ہوئے بھی ظلم سے بچ سکتا ہے۔ انسان معصوموں پر ظلم بھی کرتاہو تو تب بھی اللہ اپنی سکیم کے تحت ہونے دیتا ہے ۔ دنیا کی سکیم کو سمجھنا چاہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے یہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں بنی بلکہ امتحان کے اصول پر بنی ہے اور آخرت میں ہر چیز کا ازالہ ہوگا۔ اگر اللہ بچوں پر بڑوں کے اور کمزوروں پر طاقتور کے ظلم کو فوراً روک دے اور نہ ہونے دے تو پھر ظاہر ہے امتحان ختم ہو جائے گا۔ جب انسان حدود سے تجاوز کر کے ظلم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا نے مہلت دے رکھی ہے تو وہ بری ا لذمہ ہو گیا ، وہ اصل میں اپنی بدبختی کا سامان کررہا ہوتا ہے ۔یعنی وہ امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے ۔
چیچنیا میں جن لوگوں نے معصوم بچوں کو مارا ہے انہوں نے ایک غیر معمولی ظلم کاارتکاب کیا ہے ۔اسلام کے نزدیک تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے۔کجا کہ اتنے سارے معصوم بچے؟اس کی توجیح یہ کی جاتی ہے کہ جب روس نے گروزنی پر حملہ کیا تھا تو اس وقت بھی توبچے مارے گئے تھے تو یہ ان بچوں کی مائیں ہیں جو اپنے انتقام کی آگ بجھا رہی ہیں۔یہ ایسے ہی ہے کہ فرض کیجیے اگر خدانخواستہ آپ کا بچہ اغوا ہو جائے توکیا آپ اس کے بدلے میں ہمسائے کا بچہ اغوا کر لیں گے ۔مسلمان کو تو ہر حال میں اخلاقی حدود کا پابند رہنا ہے ۔ انسان کی جان مال آبرو کو پیغمبرﷺ نے حرم کے برابر محترم قرار دیا ہے ۔اگرمسلمان بھی انتقام میں ایک معصوم کو مار دے تو اس میں اور ایک جاہل میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ نماز قضا ہو گی ۔ آدھی رات تک نمازِ عشا کا وقت ہے۔البتہ اگر آپ اس طرح سو گئے کہ بعض اوقات آدمی تھکا ہوا ہوتا ہے اور لیٹتے ہی اچانک نیند آجاتی ہے تواس میں گنجائش ہے کہ جب آپ اٹھیں وہی نماز کا وقت ہو گا ۔یعنی اس خاص صورت میں نماز قضا شمار نہ ہو گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایسا شخص، ایک کام اچھا کر رہاہے اورایک برا۔ اللہ کے مقابلے میں انسان کو سرکش نہیں ہونا چاہیے ۔ نماز کیا چیز ہے ، اللہ کے حضور میں حاضری ہے ۔مذکورہ صورت میں اس شخص کا رویہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی آدمی آپ کو کہے کہ میں لوگوں کی خوب خدمت کرتا ہوں البتہ ماں باپ کو روز گالیاں دیتا ہوں اورجناب میں ان لوگوں سے تو اچھا ہی ہوں جو ماں باپ کی بہت خدمت کرتے ہیں۔میں مخلوق کا تو حق نہیں مارتا، کیا فائدہ ماں باپ کی ایسی خدمت کا کہ باقی مخلوق کا تم حق مارتے رہو۔واضح بات ہے کہ ایک حق خدا کا ہے اور ایک حق بندوں کا۔ہمیں دونوں ہی ادا کرنے ہیں۔ایک کو نہ اداکر نا، اس میں برتری جتانے کا کون سا پہلو ہے ؟ انسان کو بڑا عاجز ہونا چاہیے اور یہ کہناچاہیے کہ میں اللہ کے سامنے بھی سر جھکاؤں گا اور بندوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو ں گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن میں جس کا ذکر ہے وہ تو عصر کی نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عصر کی نماز کے وقت ہی عام طور پرایسی صورت پیدا ہوتی تھی، خاص طور پر جنگ کے موقع پر،کہ جب نماز ضائع ہونے کا بڑا امکان ہوتا تھا۔تو اس پس منظر میں یہ تاکید کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر وہ نماز جو تمدن کی تبدیلی کے ساتھ ایسے موقع پر آجائے کہ جس میں آدمی بہت مشغول ہو اور اسے نماز کے لیے اٹھنا بہت مشکل ہو تو اس کے لیے وہی نماز وسطی ہے اور خاص طور پر اس نمازکے لیے تاکید فرمائی گئی ہے کہ اس نماز کو ضائع ہونے سے بچاؤ ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کوئی بھی انسان الہامی علم کا حامل نہیں ھوتا۔ ہم سب ہی علم اپنے والدین ، اساتذہ اورماحول سے حاصل کرتے ہیں تو جوں ہی ہمارے علم میں دلائل سے یہ بات آجائے کہ ہمارا موجود علم غلط ہے تو فوراً انسان مان لے اور اپنی غلطی درست کر لے ۔ اس میں ڈسٹرب ہونے کی کیا بات ہے ۔ صحیح بات کو قبول کر لینا اور غلط بات کو چھوڑ دیناایک امتحان ہے جس میں ہمیں کامیاب ہونے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن میں اولاد پر سختی کرنے کا کوئی حکم نہیں آیا ۔ قرآن اس سے خالی ہے ۔ اولاد پر سختی کرنے کا معاملہ ایک بالکل عقلی معاملہ ہے۔ ہم اپنی اولاد کی تربیت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ محبت سے سمجھاتے ہیں ، عقلی دلائل دیتے ہیں ، اس کے شعور کو اپیل کرتے ہیں او ر کسی موقع پر سختی بھی کرتے ہیں ۔ یہ سارے ہی اخلاقی معاملات ہیں۔ کسی بچے کا سکول جانے کو جی نہیں چاہ رہاتو سختی کرنا پڑتی ہے ، بچہ اگر گالی دیتاہے تو سختی کرنی پڑتی ہے ۔تو یہ موقع محل اور حکمت عملی کی بات ہے کہ کس موقع پر انسان تربیت کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتاہے ۔سختی کرنا بھی تربیت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ کے احکام کی پیروی کرنا ہمارے ذمہ داری ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اللہ کے احکام بہت جامع ہیں اورانسان اگر صحیح طریقے سے ان کی پیروی کرے تو ساری زندگی ہی مربوط اور منظم ہو جاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: عورتیں قبرستان جا سکتی ہیں لیکن اگر وہاں جاکر آداب کا لحاظ رکھیں تو۔ یعنی مغفرت کی دعا کریں ، ماتم نہ کرنے لگ جائیں یا کوئی اور اس طرح کی حرکت۔ عورتوں میں چونکہ رقت قلبی زیادہ ہوتی ہے اور نرم مزاج بھی ہوتی ہیں تو اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ایک زمانے میں عورتوں کو قبرستان جانے سے روک دیا تھا پھر جب تربیت ہو گئی تو آپ نے فرمایا، چلی جایا کرو اب کوئی حرج نہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سب جانتے ہیں او راس کو مانتے ہیں کہ اصل میں نرم رویہ ہی خوبی کا رویہ ہے ۔ سختی اگر صحیح موقع پر ہے تو مفید ہو تی ہے لیکن ہر موقع پر مرض ہوتی ہے۔اور مرض کی اصلاح اور علاج ہونا چاہیے۔آدمی کے مزاج میں تیزی ہے اور وہ ہر موقع پر سامنے آجاتی ہے تو یہ چیز واقعتا قابل اصلاح ہے۔ کچھ لوگ تیز مزاج کے ہوتے ہیں تو ان کا جواز پیش کرتے رہنا گویا اپنی تیزی کی اور پرورش کرتے رہنا ہے ۔ ان کو چاہیے کہ وہ اسے کنٹرول کرنے کی کاوش کرتے رہیں۔ مزاج میں تیزی تربیت میں کمی اور کمزوری کی وجہ سے پیداہوتی ہے ۔ بتدریج کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں نرمی آجائے کیونکہ نرمی ہی شخصیت کا حسن ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ عربی زبان ہے اردو نہیں ۔ اقامت صلوۃ کا مطلب ہے نماز کا اہتمام کرنا یعنی نماز کو اللہ کے دین کا ایک بڑا رکن سمجھ کر پورے اہتمام سے ادا کرنا۔یہ اردو والا قائم کرنا نہیں ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: میاں بیوی ایک گھر آباد کرتے ہیں اورجب گھر آباد کرتے ہیں تو ان دونوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی شخصیت کو سمجھیں۔اور یہ سمجھ کر فیصلہ کر لیں کہ دونوں کے کیا حدود ہیں اور کن حدود میں رہ کر ایک دوسرے سے معاملہ کرنا ہے ۔ بہت زیادہ توقعات اور مطالبات میں نہ پڑا جائے تو بالعموم ایک خوشگوار زندگی کی ابتدا ہوتی ہے ۔ کچھ حقوق تو وہ ہیں جو بالکل قانونی نوعیت کے ہیں ظاہرہے انہیں تو ہر حال میں ادا کرنا ہوتا ہے ۔مثلاً میاں بیو ی کے درمیان تعلق کا ایک قانونی پہلو یہ ہے کہ انہیں ایک دوسرے کو تسکین کا سامان بہم پہنچانا ہوتا ہے ۔ مرد اور عورت دونوں کو اسے اپنا فرض سمجھنا چاہیے ۔ اس کے بعد مرد کے اوپر نا ن ونفقہ کی ذمہ داری ہے جسے اس نے ہر حال میں پوراکرنا ہے ۔شوہر کی حیثیت سے اسے نرمی، شفقت ، محبت اور عفو و درگزر کا رویہ پیدا کرنا چاہیے۔ خواتین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ نے انہیں ماں بننے کا شرف دیا ہے اور اس لحاظ سے انہیں اس بات کو ترجیحاً پیش نظر رکھنا ہے۔ باقی بہت سی مصروفیا ت میں سے ان کو اس جانب زیادہ وقت دینا ہے کہ یہ ان کی فطری ذمہ داری ہے ۔اگلی نسلوں کی تربیت ان کی ذمہ داری ہے ۔ اس معاملے میں جس حد تک بھی وہ ایثار کر سکیں اتنا ہی ان کے لیے باعث شرف ہے۔ اگر ان بنیادی چیزوں کو سامنے رکھ کر معاملات کیے جائیں تو امید ہے اچھی زندگی گزرے گی ۔باقی حقوق و فرائض کی کوئی لسٹ لٹکانے سے معاملات حل نہیں ہوتے اور نہ زندگی خوشگوار گزرتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بہت گہرائی سے اگر جائزہ لیا جائے تو عام طور پر کوئی ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کی جانب اس کا رحجان زیادہ ہوتا ہے ۔ پھر رحجان ہی دنیا میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتا۔اس کے حالات اور ماحول بھی بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں ۔ان سب کے اندر ایک توازن حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس معاملے میں آپ اپنے اساتذہ، دوستوں اور ماحول سے بھی مدد لے سکتے ہیں ۔لیکن بہرحال فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایک ہی بات ہے ۔ جو حلال ہے وہ طیب ہے اور جو طیب ہے وہ حلال ہے ۔پاکیزہ رزق وہی ہے جس کے اندر کوئی حرام کی آمیزش نہ ہو ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ فراڈ کرتے ہیں۔ پیسے بٹورنا اور لوگوں کو برباد کرنا ہی ان کا اصل عمل ہوتا ہے ۔ جس طرح کے دعوے وہ کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ساری تقدیر ہی ان کے ہاتھ میں دے دی ہے ۔ آپ جو چاہیں جا کر دو منٹ میں کروا کر واپس آجائیں ۔ یہ چیز تو دنیا کے اندر اللہ بھی نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ کے پاس بھی اگر آپ جائیں گے تواللہ بھی مجموعی حکمت کے لحاظ سے ہی بات مانے گا ۔ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ جو بات کہیں وہ مان لے۔ ایک کسان فصل اگا کر بیٹھا ہوا ہے او ردعا کر رہا ہے کہ پروردگار میں آپ کے دربارمیں آگیا ہوں آپ بارش نہ برسائیے گا اور دوسری جانب ہو سکتا ہے کہ کسی آدمی کو بارش کی بڑی ناگزیر ضرورت ہو وہ بھی دعا کر رہا ہے ،تو اللہ تو مجموعی حکمت کے لحاظ سے فیصلہ کرے گا۔ یہ ممکن ہے کہ ایک کسان بارش کے لیے بہت بیتاب ہو کہ مولا آج ہی برس جائے اور ایک بے چارا کٹیا والا دعا کر رہا ہو کہ مولا ابھی دو اینٹیں لگانی باقی ہیں مہلت دے دے۔ سب کی منشا کے مطابق اللہ دعائیں قبول کر ے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے لیکن عامل حضرات کے آپ اشتہارات پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ معطل ہو چکا ہے (نعوذ باللہ) اور اب آپ عامل کے دربار میں جائیں اور جو چاہیں کروا کر واپس آجائیں ۔ ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ایمان کا نقصان ہوتاہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: تہذیبِ نفس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نفس کے خیالات کو کنٹرول کر کے انہیں اخلاقی حدود کا پابند کر لیں۔ اس سے آپ کا نفس مہذب ہوتا ہے۔ کیونکہ نفس کے اندر سرکشی کے میلانات رکھے گئے ہیں اور وہ حدود کراس کرنا چاہتا ہے اور جب آپ اس کو کنٹرول کرتے ہیں تو یہ چیز اس کی تہذیب ہے ۔ تہذیب ہی کے لفظ کو قرآن نے تزکیہ سے تعبیر کیا ہے یعنی پاکیزہ بنانا ، اخلاقی حدود سے آشنا کرنااور ان کا پابند بنانا۔دنیا کے اندر انسان کو اللہ نے جو علم عطا فرمایا ہے اس کی روشنی میں اپنے آپ کو منظم کرنا ، اخلاقی حدود کا پابند بنانا تہذیب نفس ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: غور و فکر ، جتنا وقت فارغ ملے اس میں اپنے دماغ کو زحمت دیجیے کہ وہ کائنات پر ،اپنے نفس پر ، اپنے احوال پر غور و فکر کا عادی بنے کیونکہ انسان جتنا اپنے ذہن کو غور و فکر کی طرف مائل کرتا ہے اتنا ہی اس کی تہذیب نفس میں اضافہ ہوتاہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آپ جو رائے قائم کرتے ہیں وہ بعض اوقات غلط ہو سکتی ہے ، آپ کا ایک عمومی رحجان ہوتاہے بعض اوقات آدمی چہرے مہرے سے ، بات چیت سے مستحق لگتا ہے آپ کا اطمینان ہو جاتا ہے دے دیجیے اللہ آپ کو اجر دے گا ۔ اس نے جھوٹ بولا ہے اس کی ذمہ داری اس پر ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن میں یہ بات موجود ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات اس زمین اور آسمان کو اٹھا کر ایک دوسرے زمین اور آسمان میں بدل دیا جائے گا ۔میرا خیال ہے اس کا یہی مطلب ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: وہ ایک قسم کھا بیٹھے تھے جوایسی نہیں تھی کہ جس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہو۔ جب وہ صورتحال سے نکلے تو اللہ تعالی نے ان کو گویا ایک طریقہ بتا دیا کہ جس سے ان کی تسکین ہو جائے کہ انہوں نے اپنی قسم پوری کر لی ہے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے سے بھی بچ جائیں۔ یہ طریقہ وہاں اختیار کرنا چاہیے جہاں اللہ کی کسی نافرمانی اور کسی بندے کی حق تلفی کا کوئی امکان نہ ہو ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اصل میں اس دنیا کے بارے میں اللہ کی جو سکیم ہے وہ ہمارے معاشرے میں معطل کر دی گئی ہے اس وجہ سے سوالات پیدا ہو تے ہیں ۔ مثال کے طور پر عربوں کے معاشرے میں اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ بیوی نے بیوہ ہو جانے پر گھر میں بیٹھنا ہے ۔ وہ اگلے دن شادی کے لیے تیار ہوتی تھی ۔اسی لیے اللہ کو عدت کی مدت گزارنے کے بارے میں ہدایات دینی پڑیں کہ کم از کم اتنا وقت تو گزار لو۔ یہ کہنا پڑا کہ آپ نے شادی تو کرنی ہے لیکن یہ دو تین مہینے صبر کر لیں لیکن ہمارے ہاں یہ صورتحال نہیں ہے ۔ یہ ایک مسئلہ ہے اس وجہ سے بجائے اس کے کہ ساری اسکیم کو باطل کر دیا جائے ہم اپنی غلطی کی تلافی کر سکتے ہیں ۔ جب اولاد ہوتی ہے تو اصل میں جو اولاد کا ہے وہ بیوی کا ہوتا ہے وہ ماں ہوتی ہے اس وجہ سے سب کی مالک ہوتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ماں کی موجودگی میں اولاد سرکشی کرے لیکن اگر خاوند یہ خدشہ محسوس کرتا ہے تو وہ مرنے کا انتظار ہی کیوں کر رہا ہے ، اپنی زندگی میں جو دینا چاہتا ہے بیوی کو دے دے زندگی میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔ جب آپ اپنی زندگی میں فیصلہ نہیں کرتے توا للہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی وجہ بالکل مختلف ہے ۔ اس میں یہ اصول نہیں اختیار کیا گیا کہ ضرورت کس کی زیادہ ہے ۔ اگر یہ اصول اختیار کیا جاتا تو میراث تقسیم ہی نہیں ہو سکتی تھی ۔ ضرورت کس کی زیادہ ہے اس کا توکوئی قاعدہ بنایا ہی نہیں جا سکتا ۔ اصول یہ بنایا گیا ہے کہ امکانی طور پر کس سے مادی منفعت زیادہ حاصل ہوتی ہے اس اصول پر میراث تقسیم کی گئی اور یہ اصول بالکل ٹھیک ہے کہ امکانی طور پر زیادہ منفعت انسان کو اولاد سے حاصل ہوتی ہے ، اولاد نہ ہو تو بہن بھائیوں سے ہوتی ہے ۔ بیوی کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے آپ بیوی کو جو دینا چاہتے ہیں دنیا میں دے دیں اس میں کوئی مانع نہیں ہے ۔ ضرورت کو اصول نہیں بنایا گیا اور ضرورت کو اصول بنانا بے انصافی بن جاتی ہے اس کا طے کرنا آسان نہیں ہے۔ ضرورت تو آپ ہی جان سکتے ہیں یا مرنے والا۔ اس کے علاوہ وصیت کا حق بھی دیا ہے ضرورت کے لحاظ سے ۔ اللہ تعالی تو جب قاعدہ بنائیں گے بہت سے پہلووں کو سامنے رکھ کربنائیں گے جو یونیورسل ہو گا ۔ انہوں نے جو پہلو رکھا وہ یہ ہے کہ کس کو زیادہ منفعت حاصل ہوتی ہے بس اس اصول پر تقسیم کر دیا گیا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اصل میں اس دنیا کے بارے میں اللہ کی جو سکیم ہے وہ ہمارے معاشرے میں معطل کر دی گئی ہے اس وجہ سے سوالات پیدا ہو تے ہیں ۔ مثال کے طور پر عربوں کے معاشرے میں اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ بیوی نے بیوہ ہو جانے پر گھر میں بیٹھنا ہے ۔ وہ اگلے دن شادی کے لیے تیار ہوتی تھی ۔اسی لیے اللہ کو عدت کی مدت گزارنے کے بارے میں ہدایات دینی پڑیں کہ کم از کم اتنا وقت تو گزار لو۔ یہ کہنا پڑا کہ آپ نے شادی تو کرنی ہے لیکن یہ دو تین مہینے صبر کر لیں لیکن ہمارے ہاں یہ صورتحال نہیں ہے ۔ یہ ایک مسئلہ ہے اس وجہ سے بجائے اس کے کہ ساری اسکیم کو باطل کر دیا جائے ہم اپنی غلطی کی تلافی کر سکتے ہیں ۔ جب اولاد ہوتی ہے تو اصل میں جو اولاد کا ہے وہ بیوی کا ہوتا ہے وہ ماں ہوتی ہے اس وجہ سے سب کی مالک ہوتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ماں کی موجودگی میں اولاد سرکشی کرے لیکن اگر خاوند یہ خدشہ محسوس کرتا ہے تو وہ مرنے کا انتظار ہی کیوں کر رہا ہے ، اپنی زندگی میں جو دینا چاہتا ہے بیوی کو دے دے زندگی میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔ جب آپ اپنی زندگی میں فیصلہ نہیں کرتے توا للہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی وجہ بالکل مختلف ہے ۔ اس میں یہ اصول نہیں اختیار کیا گیا کہ ضرورت کس کی زیادہ ہے ۔ اگر یہ اصول اختیار کیا جاتا تو میراث تقسیم ہی نہیں ہو سکتی تھی ۔ ضرورت کس کی زیادہ ہے اس کا توکوئی قاعدہ بنایا ہی نہیں جا سکتا ۔ اصول یہ بنایا گیا ہے کہ امکانی طور پر کس سے مادی منفعت زیادہ حاصل ہوتی ہے اس اصول پر میراث تقسیم کی گئی اور یہ اصول بالکل ٹھیک ہے کہ امکانی طور پر زیادہ منفعت انسان کو اولاد سے حاصل ہوتی ہے ، اولاد نہ ہو تو بہن بھائیوں سے ہوتی ہے ۔ بیوی کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے آپ بیوی کو جو دینا چاہتے ہیں دنیا میں دے دیں اس میں کوئی مانع نہیں ہے ۔ ضرورت کو اصول نہیں بنایا گیا اور ضرورت کو اصول بنانا بے انصافی بن جاتی ہے اس کا طے کرنا آسان نہیں ہے۔ ضرورت تو آپ ہی جان سکتے ہیں یا مرنے والا۔ اس کے علاوہ وصیت کا حق بھی دیا ہے ضرورت کے لحاظ سے ۔ اللہ تعالی تو جب قاعدہ بنائیں گے بہت سے پہلووں کو سامنے رکھ کربنائیں گے جو یونیورسل ہو گا ۔ انہوں نے جو پہلو رکھا وہ یہ ہے کہ کس کو زیادہ منفعت حاصل ہوتی ہے بس اس اصول پر تقسیم کر دیا گیا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اٹھارہ اور ستر سال کا جو واقعہ پیش آگیا ہے اس میں تو بچی سے تعزیت کرنی چاہیے ۔ بڑی افسوس ناک بات ہے ۔ شادی کے معاملے میں مذہب یہ مداخلت تو نہیں کر تا کہ وہ عمروں کا تعین کر دے لیکن اصولی بات کہی گئی ہے کہ اس میں برابری کا لحاظ ہونا چاہیے اور یہ برابری ہر پہلو سے ہونی چاہیے یعنی عمر کے پہلو سے بھی۔فرق ہو تو معقول ہو۔اسی طرح یہ برابری مال دولت ، معاشرت ، خاندان سب میں ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کو لوگ قبول کر سکیں ۔ ستر سال کے بوڑھے میاں کو خود ہی شرم کرنی چاہیے ۔گھر بسانا ہے توبہت سی بیوہ عورتیں موجود ہیں بہت سی بڑی عمر کی عورتیں موجود ہیں ، ان سے بسایا جا سکتا ہے ۔ ایک اٹھارہ سال کی لڑکی کی زندگی تباہ کرنے کے کیا معانی ہیں۔ایسے میں وہ لڑکی کسی وقت اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کی طرف مائل ہوجائے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ؟دین میں اصولی بات بتائی گئی ہے باقی یہ کہ عمر کو متعین تو نہیں کیا جا سکتا بعض اوقات بعض حالات میں ذرا زیادہ فرق بھی ٹھیک ہوتا ہے لیکن وہ ذرا زیادہ فرق ستر اور اٹھارہ سال کا ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: وتر میں دعائے قنوت پڑھنا لازم نہیں ہے ۔ اگر آپ کو آتی ہے پڑھ لیجیے اچھی بات ہے ، نہیں آتی تو نہ پڑھیے اس سے نماز میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی یہ ایک دعا ہے اور دعا کی جائے تو بہت اچھی بات ہے ۔ نہ کریں تو نماز ہو جاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)