نفس

ج: اس کی نشاندہی خود اللہ تعالی نے قصہ آدم و ابلیس میں کر دی ہے ۔ انسان کے اوپر حملہ اس کی خواہشات و شہوات کے راستے سے ہو گا اس لیے اپنی خواہشات اور شہوات کو ذرا لگام دے کر رکھیے

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کا مقصود ہمارے نفس کی تطہیر اور اس کا تزکیہ ہے یعنی اس کو پاک کرنا اور اسے صحیح سمت میں نشوونما دینا ۔ قیامت میں نفس کی بالیدگی اور پاکیزگی ہی جنت یاجہنم کا باعث بنے گی ۔دنیا کی زندگی میں انسان کو اس امتحان میں اسی لیے ڈالا گیا ہے کہ پرکھا جائے کہ کون نفس کو آلودہ کرتا ہے اور کو ن اس کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ نفس کو پاکیزہ رکھنے اور اس کو صحیح سمت میں نشوو نما دینے کے لیے انسان کیا کرے ؟ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے اللہ نے اپنا دین نازل کیا ہے اگرانسان دین پرصحیح فہم کے ساتھ عمل پیرا ہو تو اس کے نفس کوپاکیزگی بھی حاصل ہو گی اور بالیدگی بھی۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دین پر عمل کے لیے کس طرح تیار کرے۔ یعنی یہ تو بتا دیا گیا کہ آپ مدرسہ میں جا کر انجینئرنگ سیکھ لیں لیکن سوال یہ ہے کہ مدرسہ جانے کے لیے بستر سے اٹھنا پڑے گا ، اس عمل کے لیے نفس کو کس طرح آمادہ کیا جائے ؟ یہ چیزدین کا موضوع نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو بہت سی صلاحیتیں اور علوم و فنون دے رکھے ہیں۔ اسکو مثال سے سمجھیے ۔ ایک آدمی قرآن سے دین اخذ کرتا ہے اور پیغمبر کی ہدایت اس کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے ۔ اب وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو دین پہنچائے۔ تو اس کے لیے دین نے اسے کوئی خاص طریقہ نہیں بتایا۔تعلیم، تقریر، تحریر کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔اگر وہ چاہے کہ تصنیف و تالیف کا طریقہ اختیار کرنا ہے تو اسے یہ فن سیکھنا پڑے گا۔ انبیا یہ چیز بتانے کے لیے نہیں آئے ۔ یہ چیز انسان اپنے تجربے اور مشاہدے سے سیکھتا ہے ۔تصنیف و تالیف میں بڑے بڑے صاحبان فن پیدا ہو ئے ہیں۔وہ انسان ان کی تحریروں سے سیکھے گا یا پھر کسی صاحب فن کی صحبت میں رہ کر سیکھے گا۔اسی طرح ایک آدمی دین کو سمجھ لیتا ہے ، اب وہ اس کی تعلیم دینا چاہتا ہے ۔تعلیم و تدریس خود ایک فن ہے یعنی ایک آدمی خود بہت دیندار ہے لیکن اس کے دین دار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس فن سے واقف بھی ہو۔ تعلیم و تدریس کے فن میں مسلم دنیا نے بھی اور جدید مغربی دنیا نے بھی بہت سے تجربات کیے ہیں اور ہو رہے ہیں۔چنانچہ اس انسان کو یہ فن سیکھنا پڑے گا۔ یہ وہ چیز نہیں جو قرآن و سنت میں بیان ہوئی ہے۔یہی صورت حال تزکیے کی ہے ۔کہ تزکیہ حاصل تو دین سے کرنا ہے مگر اس پر خود کو آمادہ کیسے کیا جائے۔ یہ بجائے خودانسانی تجربات پر مبنی ایک فن ہے ۔یعنی یہ بات کہ انسانی نفسیات کیا ہے ، وہ کسل مندی کا شکار کیسے ہوتی ہے ، اس کے اوپر پردے کیسے پڑتے ہیں ، ان کو کیسے اتارا جاتاہے ، یہ ایک مکمل علم ہے۔اور اس بارے میں صوفیا کے علم کلام اور فلسفے سے ہزاراختلاف کے باوجود مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ صرف صوفی ہیں جو اس فن سے واقف ہیں۔ یعنی ایک بندے کو دین پر کیسے عمل پیرا کیا جائے ۔اس کے لیے انہوں نے جو ادارہ بنایا وہ خانقاہ کہلاتا ہے ۔ اسی لیے میں بھی اس پر بہت زور دیتا ہوں کہ کچھ لوگ آگے آئیں اور خانقا ہ بنائیں۔صوفیا نے دین کی جو تعبیرکی وہ سرتا سر غلط ہے مگر انہوں نے عمل کے لیے جو طریقے ایجاد کیے ا ن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ اہل علم کو خدا توفیق دے کہ وہ بھی اس کو سیکھیں اوراس کو باقاعدہ موضوع بنا کر ادارہ وجود میں لائیں۔یعنی ایسا ادارہ جس میں لوگ کچھ وقت گزاریں اور سیکھیں۔اس کی بہترین مثال آج کے دور میں تبلیغی جماعت بھی ہے۔ ان کی دینی تعبیر سے اختلاف کے باوجود اس فن میں بعض چیزیں ان سے بھی سیکھی جا سکتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ایک ماہر فن چند چیزوں کی مشق کرا کے ، چند چیزوں کی تربیت دے کے ، آپ کو اٹھا دیتا ہے ، کسل مندی دور کر دیتا ہے ، طبیعت میں نشاط پیدا کر دیتا ہے۔ تو یہ باقاعدہ ایک کام ہے جو کرنا چاہیے۔ جب تک صوفیا کا ادارہ قائم رہا ہے ، اس وقت تک ہمارے معاشرے کو کبھی ماہرین نفسیات کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ ان کا ایک خاص انداز ہوتا تھا جس سے وہ آدمی کی تربیت کر کے آہستہ آہستہ اسے دین کے قریب لے آتے تھے ۔اس معاملے میں، میں ان کابہت قائل ہوں ۔ میرا احساس یہ ہے کہ اس کام کے لیے سوچنا بھی چاہیے اور اس کا اہتمام بھی کرنا چاہیے یہ کام مجرد دین بتانے سے نہیں ہوتا ۔ یہ ایک مخصوص تربیتی عمل اور فن ہے اور فن کا ماہر آدمی آپ کو دنوں میں تبدیل کردیتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جس چیز کو آپ ضبط نفس یا Self control کہتے ہیں ، وہی تو انسانیت کا شرف ہے ۔ اللہ نے انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے ، وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ خیر و شر کی کشمکش میں شر کی طرف میلان پیدا ہو رہا ہے تو وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرتا ہے ۔ انسانیت کا اصلی امتیاز یہی ہے ، اگر انسان ضبط نفس سے کام نہیں لیتا تو پھر اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ ضبط نفس انسان کو نہیں کرنا تو ذرا اس بات کو بڑھا کر دیکھیے کہ نوبت کہاں پہنچ جائے گی ، جس کے پاس طاقت ہے وہ دوسروں کے حقوق غصب کر لے گا ۔ جس قوم کو اللہ تعالی نے بہت قوت اور شان و شوکت دی ہے وہ دوسروں کو پامال کر ڈالے گی ۔ جس آدمی کو جسمانی لحاظ سے طاقتور بنایا ہے وہ ہو سکتا ہے کسی کمزور کو سڑک پر ہی نہ چلنے دے ۔اصل میں ضبط نفس کا لفظ لوگ چند خاص چیزوں کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جبکہ ضبط نفس ہر میدان میں ہے اور یہ ہی تو اصل میں انسانیت کا شرف ہے ۔ برائی صرف چند جنسی میلانات سے متعلق نہیں ہوتی ۔ ملاوٹ بھی برائی ہے ، بددیانتی بھی برائی ہے، خیانت بھی برائی ہے ، مال کی ناجائز طلب بھی برائی ہے ، مال کی ہوس بھی برائی ہے ۔ دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے داعیات بھی برائی ہیں۔ ان ساری چیزوں میں اگر ضبط نفس کو اٹھا لیا جائے تو باقی رہ کیا جائے گا ؟ کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ پھر تو انسان جانوروں سے کام کرے گا۔ ضبط نفس میں آدمی اگر ایک اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنی تربیت کرتا چلا جائے تو کچھ وقت کے بعد اس پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوتے البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض موقعوں پر بعض لوگ کچھ ایسی پابندیاں لگا دیتے ہیں جو شریعت میں نہیں ہوتیں۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو کمال حاصل کرنے کے لیے وہ پابندیاں اختیار کرنی چاہیےں۔ مذہبی لوگ اس کا لحاظ کیے بغیر کہ نوجوانوں کو کہاں سے تربیت دینی چاہیے، کس جگہ سے ان کو شروع کرانا چاہیے ، آخری درجے کی باتیں شروع کر دیتے ہیں تو اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر نوجوانوں کو نوجوان سمجھ کر اس چیز کا شعور دیا جائے کہ ضبط نفس ہی انسانیت کا کمال ہے ، اسی سے انسان بڑا ہوتا ہے ، اسی سے انسانیت اپنی معراج کو پہنچتی ہے اور اسی سے درحقیقت دنیا میں خیر و صلاح کے سارے داعیات پیدا ہوتے ہیں تو وہ ضروربات سنیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ راستے میں چلتے ہوئے آپ نے دیکھا غالباً ابو مسعود انصاری ؓ اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آپ نے پیچھے سے کہا کہ ابو مسعود! جتنی طاقت تم کو اپنے غلام پر حاصل ہے ، خدا کو تم پر اس سے زیادہ طاقت حاصل ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ رک گئے بلکہ ان کی زبان سے فوراً یہ نکلا کہ میں نے غلام کو آزاد کیا ۔ ایک مظلوم کے ستم کو دور کرنے کی کیا قدرو قیمت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ابو مسعود ؓ اس وقت اگر اس کو آزاد نہ کرتے تو جہنم میں جاتے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ضبط نفس کس قدر و قیمت کی چیز ہے ۔حضورﷺ کی آواز پر اس صحابی نے ضبط نفس ہی تو کیا۔ضبط نفس تو ہر حال میں ہونا چاہیے البتہ ضبط نفس کی تربیت نوجوانوں کو بڑی حکمت اور تدریج کے ساتھ دینی چاہیے۔ او راس میں بھی یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ بڑی بڑی جو خرابیاں ہیں ، ان کو پہلے موضوع بنانا چاہیے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خود پیدا ہونے دینا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تہذیبِ نفس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نفس کے خیالات کو کنٹرول کر کے انہیں اخلاقی حدود کا پابند کر لیں۔ اس سے آپ کا نفس مہذب ہوتا ہے۔ کیونکہ نفس کے اندر سرکشی کے میلانات رکھے گئے ہیں اور وہ حدود کراس کرنا چاہتا ہے اور جب آپ اس کو کنٹرول کرتے ہیں تو یہ چیز اس کی تہذیب ہے ۔ تہذیب ہی کے لفظ کو قرآن نے تزکیہ سے تعبیر کیا ہے یعنی پاکیزہ بنانا ، اخلاقی حدود سے آشنا کرنااور ان کا پابند بنانا۔دنیا کے اندر انسان کو اللہ نے جو علم عطا فرمایا ہے اس کی روشنی میں اپنے آپ کو منظم کرنا ، اخلاقی حدود کا پابند بنانا تہذیب نفس ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کا مقصود تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی فکر اورانفرادی اور اجتماعی زندگی کو آلائشوں سے پاک کر کے ان کے عمل کو صحیح سمت میں نشوونما دی جائے ۔ اللہ نے اپنے پیغمبر اسی مقصد کے لیے بھیجے ۔ اللہ نے یہ دنیا اس اصول پر بنائی ہے کہ یہاں پر انسان پیغمبروں کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفس کی آلائشوں کو دور کرنے کی سعی کرے اور اپنے نفس کی تربیت کرے تا کہ جنت میں آباد ہونے کے قابل ہو جائے ۔ جنت میں آباد ہونے کے لیے بنیادی شرط ہی تزکیہ نفس ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے قد افلح من تزکی

(جاوید احمد غامدی)