ج: وفات کے بعد انسان عالم برزخ میں ہوتا ہے اور کس حالت میں ہوتا ہے اس کے بارے میں ہمیں علم نہیں۔قرآن سے بس اتنی بات معلوم ہے کہ اچھے لوگوں سے اچھا معاملہ ہوتا ہے اور برے لوگوں سے برا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن مجید میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر قیامت تک کے لیے ایک اوٹ ہے جس میں اس کو رکھا جاتا ہے ، عربی زبان میں اوٹ کے لیے برزخ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، اسی سے ہمارے ہاں یہ اصطلاح بن گئی کہ وہ معاملات جو آدمی پر مرنے کے بعد قیامت سے پہلے واقع ہوں گے وہ گویا عالم برزخ کے معاملات ہیں۔عالم برزخ امور متشابہات میں سے ہے جس طرح نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ وہ موت نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ کو بھی ایک قسم کی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ وہ اس طرح کی زندگی نہیں ہوتی جیسی اب ہے یا جیسی قیامت کے بعد ہو گی۔ لیکن ہے بہر حال زندگی۔ اس میں انبیا ، شہدا اور صالحین کا امتیاز بیا ن کیا گیا ہے اسی طرح آل فرعون کا امتیاز سزا کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی ان کو سزا ملتی ہے اور شہدا کو رزق حقیقی زندگی تو قیامت کے بعد شروع ہو گی برزخ میں جو زندگی کی نوعیت ہے اس کا ہم شعور نہیں کر سکتے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طرح کے لوگ ہیں ایک وہ ہیں کہ جن کا معاملہ حق پرستی کے معاملے میں بالکل واضح ہے انہوں نے حق کو اختیارکیا ، اس کے تقاضے پورے کیے اور دین میں سبقت کے ساتھ زندگی بسر کی جیسے انبیا ہیں صالحین ہیں تو ان کے لیے دنیا سے رخصت ہونے کے فورا ًبعد اللہ کی نعمتیں شروع ہو جاتی ہیں وہ اگرچہ اس جسمانی وجود کے ساتھ تو نہیں ہوتیں لیکن ہوتی ضرور ہیں۔ قرآن نے کہا ہے کہ ایک طرح کی برزخی زندگی ہوتی ہے جس کا تم شعور نہیں رکھتے ۔اس میں اللہ ان کو رزق دیتا ہے، نعمتیں دیتا ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے ان کی سرکشی واضح ہوتی ہے ۔وہ خدا کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں جیسے فرعون ہے ابوجہل ہے تو ان کے لیے موت کے ساتھ ہی اللہ تعالی کا عذاب شروع ہو جاتا ہے ۔جس طرح فرعون کے بارے میں قرآن میں کہاگیا کہ اسے صبح شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد درمیانی لوگ ہیں اور ظاہر ہے کہ انہی کی بڑی تعداد ہے تو ان کے بارے میں قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتاہے اور یہ آیت بھی جس کا آپ نے حوالہ دیا انہی آیات میں سے ہے کہ وہ سب سلا دیے جاتے ہیں ، قیامت میں اٹھیں گے اور پھر ان کا مقدمہ پیش ہو گا ، پھر اس مقدمے کے لحاظ سے ان کا اعمال نامہ سامنے آئے گا ۔ اس کے بعد اتمام حجت کیا جائے گا کہ جو کچھ بھی فیصلہ کیا جارہا ہے وہ بالکل مبنی برحق ہے تب ان کے بارے میں فیصلہ ہو گا تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے تینوں چیزیں اپنی جگہ الگ الگ ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)