جواب: شرک کی حقیقت واضح کرنے کے لئے وہی استدلال اپنانا چاہیے جو قرآن مجید نے شرک کے بارے میں اپنایا ہے اوروہ ایک سادہ سی بات ہے کہ اس کائنا ت کا او رخود انسان کا وجود عقلی تقاضا کرتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہونا چاہئے ۔ مشرک کا معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ کائنا ت کے خالق کو نہیں مانتا ۔وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہے مگر اس نے اپنے اختیارات منتقل کر دیئے ہیں۔ قرآن نے اس پر سادہ سوال کیا ہے کہ اختیارات اللہ نے منتقل کئے ہیں ۔تواللہ کی سند دکھائو۔ اختیارات منتقل کرنے والا خدا ہے۔آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ فلاں کو اللہ نے یہ صلاحیت دے دی ہے ،فلاں کو یہ اختیار دے دیا ہے ۔ اولاد لینی ہے تو فلاں کے پاس جانا ہے ۔ دولت لینی ہے تو فلاں دیوی کے پاس جانا ہے یا فلاں حضرت کی خدمت میں حاضر ہونا ہے ۔جب آپ یہ کہہ رہے ہیں تو گویایہ بات آپ اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں ۔ اختیار دینے کا معاملہ تو ہر حال میں اختیار دینے والے کی سند سے ثابت ہو گا۔تو قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ سند از راہ کر م پیش کرو۔یعنی اللہ تعالیٰ نے فلاں کو اختیار دیا ہے ۔تو بتا دیجئے کہ کہاں دیا ہے؟کیا کسی الہامی کتا ب میںیہ لکھا ہوا ہے یا کسی پیغمبر نے آپ کو بتایا ہے ہا تو برہانکم ان کنتم صادقین۔۔۔اگر سچے ہو تو کوئی سند لے آئو۔یہ سادہ استدلال ہے۔ شرک کے حق میں تو کوئی بات کہی نہیں جاسکتی ۔ شرک کے معنی کیا ہیں ۔شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں، صفات میں ،حقوق میں کسی کو شریک کرنا۔تو یہ شرکت یا تو اللہ نے اس کو بخشی ہے یا نہیں بخشی۔بخشی ہے تو اللہ ہی بتائے گا کہ میں نے بخشی ہے۔میں نہیں بتا سکتا ۔یا کوئی اور نہیں بتا سکتا ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں نے جو گورنر مقرر کیا ہے فلاں صاحب کو وہ پروانہ تقرر مجھے دکھا دو۔بس بات ختم۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: انکار کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ کی سمجھ میں بات نہیں آئی ۔انکار تعصب کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ ڈھٹائی کی بنیاد پر ہوتا ہے ‘ضد کی بنیا د پر ہوتا ہے ‘ انانیت کی بنیا د پر ہوتا ہے ‘جذبات کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ خواہشات کی غلامی میں ہوتا ہے ۔ انکار کے بے شمار وجوہ ہیں۔جس انکارکو قرآن اپنی اصطلاح میں کفر کہتا ہے وہ تب ہوتا ہے جب انسان حق واضح ہو جانے کے بعد جانتے بوجھتے محض ڈھٹائی‘ تعصب اور ضد سے انکار کر دے۔ا س وقت دنیا میںمسلمانوں کے علاوہ جو سارے لوگ پائے جاتے ہیں ۔وہ غیر مسلم ہیں ۔کافر نہیں ہیں۔کافر وہ تب ہوں گے ۔جب یہ واضح ہو جائے گا کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی محض ڈھٹائی سے انکار کر دیا ۔کافر قرآن کی اصطلاح ہے ۔ اتمام حجت کے بعد ،حق کے واضح ہو جانے کے بعد جب کوئی فرد یا جماعت اس کا انکار کرے تو پھر قرآن اسے کافر کہتاہے ۔ورنہ آدمی یہودی ہوگا ، نصرانی ہوگا ، یا کچھ اور ہو گا۔
بنی اسرائیل پر قرآن کا اصل الزام یہ ہی ہے کہ یہ پہچان گئے ہیں۔یعرفونہم کما یعرفون ابنائہم ایسے پہچانتے ہیں کہ جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔ کوئی شبہ نہیں ہے اس معاملے میں اس کے با وجو د انکار کرتے ہیںجو قوم اس جگہ تک پہنچ گئی ہو کہ جب ان کو بتایا گیا کہ جبرائیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن لے کر آتے ہیں ۔تو انہوںنے کہا کہ اس کی تو ہمارے ساتھ سد اکی دشمنی رہی ہے ۔پہلے بھی اسی طرح یہ کام کر چکا ہے ۔تو یہ وہ سرکشی ہے جو باعث بنتی ہے کفر کا ۔آپ کے سامنے حق آگیا واضح ہوگیا آپ نہیں مان رہے ۔اس کے بعد حجت تما م ہو جاتی ہے ۔اور قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ جب تک یہ چیز نہ ہو جائے اس وقت تک ہم نہ دنیامیں عذاب دیتے ہیں نہ آخر ت میں ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ایک آدمی کی سمجھ میں بات نہیں آئی تو وہ معذور ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کے اتمام حجت کے بعد جب مشرکین عرب کے لیے آخری عذاب کا فیصلہ کیا گیا سورہ توبہ میں تو اس میں بھی ایک استثنا بیا ن ہوا ہے وان احد من المشرکین استجارک اگر کوئی ان مشرکین میں سے اتمام ِ حجت کے با وجود یہ کہتا ہے بات ابھی مجھ تک نہیں پہنچی ۔تو عذاب کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔قرآ ن کہتا ہے کہ فَاَ جِرہْ اس کو احترام کے ساتھ مہمان کے طور پر اتاریئے۔حتی یسمع کلام اللہ اور اس کے سامنے اللہ کا کلام پیش کر دیجئیثم ابلغہ ما منہپھراس کو جانے دیجئے تاکہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ کر مزید غور کر لے ۔اس کے بعد کارروائی ہوگی ۔اس کے بغیر نہیں ہو سکتی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سارے لو گ کافر ہو گئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے ۔ البتہ غیر مسلم ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ تو میں نہیں جانتا کہ انسان کا لا شعور سوتے میں کیسے کام کرتا ہے کیونکہ اس معاملے میں جو بھی تحقیقات ہوئی ہیں وہ ابھی اس راز کو آشکار نہیں کر سکیں۔ لیکن لاشعورکام بہر حال کرتا ہے ۔ پچھلی صدی میں جو بڑے ماہرینِ نفسیات گزرے ہیں انہوں نے خوابو ں کا بڑی تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا ہے ۔اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ خوابوں کی کئی صورتیں ہیں ۔ عموماًہمارالاشعور تمثیل کی صورت میں چیزوں کو ہمارے سامنے لانا شروع کر دیتاہے۔ہماری بعض یادیں ہوتی ہیں جو تمثیل کی صور ت میں ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بسا اوقا ت ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی خاص خیال میں غلطان ہوتے ہیں ۔تو اس خیال کی تمثیلی صورتیں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔یعنی ڈرامائی تشکیل ہو جاتی ہے ۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ انسان کی راہنمائی کے لیے بھی یہ ذریعہ اختیار کرتے ہیں ۔ جیسے سیدنا یوسفؑ کا خواب بیان ہوا ہے۔یاجیسے بادشاہ کا خواب بیان ہوا ہے ۔یہ بھی تمثیلی صورت میں بیان ہوئے ہیں ۔سات دبلی گائیں سات موٹی گائیںایک دوسرے کو کھار ہی ہیں۔سیدنا یوسف ؑ نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے سور ج اور چاند میرے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ان تماثیل کاپھر مصداق متعین کرناہوتا ہے ۔
بعض نفسیاتی بیماریاں بھی خوابوں کا باعث بن جاتی ہیں ۔اچھی نیند نہ ہونا بھی اس کی وجہ بن جاتی ہے۔
بعض اوقات آدمی کو خود بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کے خواب اضغاث و احلام ہیںیعنی لا شعور کا کھیل تماشا ہے جو ہم نے دیکھ لیا ہے ۔اور بعض اوقات اسے یقین سا ہوتا ہے کہ اس کا خواب کسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو ایسے میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی سمجھدار آدمی سے مشورہ کر لے۔ ممکن ہے کہ وہ کوئی اچھی بات ہی بتا دے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: ایسے بچے کو تو لانا نہیں چاہئے جو لوگوں کی نما ز میں خلل انداز ہو۔سمجھدار بچوں کو لایا جا سکتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے نفع نقصان میں شرکت کی ہے ۔لیکن حقیقت میں تو بس نام ہی تبدیل ہوا ہے ۔ہر آدمی جوبینکنگ کو جانتا ہے اسے اس کی حقیقت اچھی طرح معلو م ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: روایات یا تفاسیر فر قہ پید ا نہیں کرتیں بلکہ فرقہ اصل میں ایک ذہنیت سے پیدا ہوتا ہے یہ آ پ چاہیں تو سائنس میں پیدا کرلیںچاہیں تو ٹیکنالوجی میں پیدا کرلیں۔
دنیا میں ہر علم کو جب پڑھا جاتا ہے ۔تو اس کی شرح و تفسیر میں اہل علم میں اختلاف ہو جاتاہے۔ شیکسپئر‘ملٹن ‘علامہ اقبال ‘غالب کسی کو دیکھ لیںا ن کے اشعار کی شرح و تفسیر میںاہل علم میں بے پناہ اختلاف موجودہے۔اس اختلاف کو شائستگی سے بیان کیجیے۔کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔
کبھی اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ پر الہام ہوتا ہے ۔یہ کہئے کہ میں نے یہ بات سمجھی ہے ۔میں ایک طالب علم ہوں ۔یہ اس کے دلائل ہیں ۔دوسرے آدمی کی بات توجہ کے ساتھ سنئے ۔اگر آپ کی غلطی واضح ہو جائے تو قبول کر لیجئے۔نہ واضح ہوتو شائستگی کے ساتھ اپنی بات کہہ کے خاموش ہو جایئے۔کوئی فرقہ نہیں بنے گا ۔لیکن جس وقت آپ اپنی بات کو الہام قرار دیتے ہیں ۔اپنے بزرگوں کی بات حتمی حجت سمجھتے ہیں۔جب آپ کسی نئی چیز کو سنتے وقت فوراًآستین چڑھا لیتے ہیں ۔منہ میں کف بھر لیتے ہیں۔مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔جو آپ کے تعصبات ہیں ان سے ہٹ کے کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تویہ ایک ذہنیت ہے۔یہ ذہنیت کسی بھی علم میں پیدا ہو جائے فرقہ بن جائے گا۔
فرقہ اختلاف کرنے سے نہیںبنتا۔اختلاف تو انسانیت کا حسن ہے ۔ ایک ہے اختلاف کرنے کے لیے اختلاف کرنا ۔دوسرا یہ ہے کہ آپ واقعی کسی مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہوں۔یہ جتنی بھی سائنسی ترقی ہے اصل میں اختلاف کی پیداوار ہے ۔اگر ارسطو سے اختلا ف نہ کیا جاتا تو نیوٹن کیسے پیدا ہوتا ۔دنیا وہیں کی وہیں رکی رہتی۔اختلاف ترقی کا ذریعہ ہے۔ آپ چیزوں پہ غور کرتے ہیں تو آپ کو پہلی رائے سے اختلاف ہو جاتا ہے آپ کہتے ہیں نہیں یہ بات ٹھیک نہیں ہے ۔
اصل چیز یہ ہے کہ آپ اپنی بات بیان کیسے کرتے ہیں۔باہمی احترام کے ساتھ ایک دوسرے کا حق مان کر یا خود کو تنقیداوراختلاف سے بالاتر سمجھ کر۔ ہمارے ہاں صورتحال یہی دوسری ہے ۔لو گ کہیں گے کہ جی تحقیق ہونی چاہئے۔کوئی کر بیٹھے تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔اجتہاد ہونا چاہئے کوئی جسارت کر بیٹھے تواس کا حقہ پانی بند ہو جاتا ہے۔
لوگوں کو اپنی آرا دلائل کے ساتھ بیان کر دینی چاہیے۔ آپ کو معقول لگے مان لیں۔معقول نہ لگے اس پر غور کرتے رہیں۔ ہر بیان کرنے والا یہ بتا دے کہ میں کوئی پیغمبر نہیں ہوں ۔مجھ پر وحی نہیں آتی۔میں سمجھتا ہوں طالب علموں کی طرح اور ہو سکتا ہے کہ مجھے غلطی لگ گئی ہو۔امام شافعی نے اس بات کو نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔کہ ہم اپنی رائے کو صحیح کہتے ہیں ۔لیکن اس میں غلطی کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔ہم دوسرے کی رائے کو غلط کہتے ہیں لیکن اس میں صحت کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔بس اگر آپ اس جگہ کھڑے ہو جائیں۔ کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔اس جگہ نہ کھڑے ہوں۔ توقرآن میںبھی فرقے پیدا ہوجائیں گے،روایت میں بھی ہو جائیںگے ، حدیث اورفقہ بلکہ ہر چیز میں ہو جائیں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: زندگی خود سے ختم کرنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ بالکل common sense کی بات ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک امتحان کے لیے بھیجا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ جی آپ سے غلطی ہو گئی ہے ۔ واپس بلالیں ۔ورنہ میں آرہا ہوں ۔ ہے نابغاوت ؟ اس سے بڑی کوئی بغاوت نہیں ہو سکتی۔ا س وجہ سے یہ بڑا جرم ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: بسم اللہ سب سورتوں کے شروع میں فصل کے لئے لکھی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا بیان ہے کہ یہ قرآن میرے نام سے پڑھ کر لوگوں کو سنایا جائے۔ یہ سورہ فاتحہ کی بھی آیت نہیں ہے۔ کسی دوسری سورہ کی بھی آیت نہیں ہے ۔ سوائے ایک سورہ کے جس کے اندر آئی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اس معاملے میں استدلال کا طریقہ بہت سادہ ہے وہ اختیار کیجیے۔وہ یہ کہ آپ وہاں کیوں جارہے ہیں؟جانے والے سے پوچھئے۔کس لیے جارہے ہیں۔اس کا جو جواب ملے گا اس پر بات ہو گی دو جواب ہو سکتے ہیں۔ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ میں ان سے مانگنے جا رہا ہوں ۔تو اس کے تو شرک ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔دوسرا جواب یہ ہو سکتاہے کہ وہاں دعا زیادہ قبو ل ہوگی۔تو میں پوچھوںگا کہ اس کی دلیل ؟یہ بات کہ کہاں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے کون بتائے گا ۔اللہ بتائے گا یا اسکا رسولؐ بتائے گا۔بس یہ دو سادہ سوال ہیں ۔ پوچھ لیجیے۔اس کے بعد خود رائے قائم کر لیجیے۔دین بڑی سادگی کے ساتھ آپ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے نبی نے بھی بتایا ہے کہ کون کون سے مقامات ہیں ۔جب دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ۔کون کو ن سے اوقات ہیں جہاں دعا زیادہ قبو ل ہوتی ہے ۔یہ بات کہ فلاں شخص کے مزار پر دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ۔قرآن میں کس جگہ لکھا ہوا ہے ؟ حدیث میں کس جگہ لکھا ہوا ہے ؟اگر نہیں لکھا ہوا تو آپ جو یہ بات کہہ رہے ہیں وہاں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے یہ پھر خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تو کچھ نہیں ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: سادہ طریقہ ہے کہ جب آپ کو شعور ہوا ہے آپ فوراً نماز پڑھ لیں ۔ زندگی انسان کی محدود ہے ۔ کچھ پتہ نہیں کہ کب بلاوا آجائے۔ اگرآپ کی نماز رہ گئی کسی وجہ سے تو جیسے ہی آپ اس صورتحال سے نکلیں آپ فوراً نماز پڑھ لیں۔ اِلّا یہ کہ کوئی ممنوع وقت ہو اور ممنوع اوقات جو ہیں وہ دو ہی ہیں۔ یا طلوعِ آفتاب کا وقت ہے یاغروب آفتاب کا وقت۔ بس اس کو نکال لیجئے اور پھر پڑھ لیجئے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب:کائنات اللہ تعالیٰ کے قوانین کے تحت چل رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ پابند تو نہیں ہو گئے ۔ قادر ہیں جب چاہیں خلاف ورزی کرلیں ۔یعنی اللہ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ میں قانون کے مطابق معاملا ت کو چلا رہا ہوں ۔سورج کو میں مشرق سے طلوع کرتا ہوں۔تو میں اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ مغرب سے طلوع نہ کروں۔جب چاہے گا کر دے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہاں جس مدد کا ذکر ہے وہ مافوق الاسباب مدد ہے ۔یہ مددہم اللہ ہی سے مانگ سکتے ہیں کسی اور سے نہیں مانگ سکتے۔دنیامیں تو ہم ایک دوسر ے سے مدد چاہتے ہی ہیں ۔اگر مجھے آپ کے ساتھ کوئی کاروبار کرنا ہے یا کوئی معاملہ کرنا ہے تومیں آپ سے مدد مانگوں گا ۔مجھے پانی پینا ہے تو میں کہوں گا کسی سے بھئی مجھے پانی لا دو ۔عالم ِ اسباب میں ہم یہ مدد مانگتے ہیں ایک دوسرے سے یہ اصولی بات ہے ۔ اب رہ گئی سفارش تو سفارش اگر آپ نے کسی جائز مقصد کے لئے توجہ دلانے کے لئے کی ہے تو نیکی کا کام کیاہے ۔اگر کسی کا حق مارنے کے لئے کی ہے تو ناجائز کا م کیا ہے ۔یہ دیکھ لینا چاہئے کہ آپ کیا کرنے جارہے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حلا لہ ایک حرام کام ہے ۔ اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جو اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتاہے یہ۔ کرائے کا سانڈ ہے۔اتنے سخت الفاظ میں فرمایا ہے اس لئے اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کامذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔
کسی بیوی نے یہ کام کر لیا۔ا ب جو کچھ بھی آپس میں طے کیا اس کا کسی کو علم نہیں ہوا۔تو قانون اس نکاح کو تو باطل نہیں قرار دیتا ۔اس لئے کہ دلوں کے حال اللہ جانتا ہے اور نیت میں کیا خرابی تھی اس کا فیصلہ وہ قیامت کے دن کرے گا ۔دنیا میں تو معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور کوئی خاونداگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو اسے ضرور یہ معلوم کر لینا چاہئے۔کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے کرتو معاملہ نہیں کیا گیا ۔ لیکن فرض کیجئے کہ اس نے پوچھ لیا ۔نیت معلو م کر لی ۔ اس سے جھوٹ بول دیا گیا تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ذمہ داری اس کی ہے جس نے جھوٹ بولا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ اچھی بات ہے ۔آپ جماعت کراتے ہیں۔بیگم ساتھ شریک ہو جاتی ہے تو یہ باعثِ اجر ہوگا۔لیکن جس نماز کا ثواب ستائیس گنا بیا ن ہوا ہے۔وہ جماعت کی نماز ہے۔یعنی جو مسلمانوں کے ساتھ آپ جاکر پڑھتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: گرو گوبند صاحب نے جب سکھوں کو منظم کیا توانہوں نے ان کی پانچ علامتیں قرار دے دیں۔جس میں یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں کڑا ہوتا ہے ،کرپان ہوتی ہے ۔پھر کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا ذکراس مہذب مجلس میں موزوں نہیں ۔اور یہ بال بھی انہی علامتوں میں شامل ہیں۔ عام طور پرجب کسی جماعت یا تنظیم یا کسی گروہ کو منظم کیا جاتا ہے تو ان کی امتیازی علامتیں مقرر کر دی جاتی ہیں۔
سکھ بہت باغی لوگ تھے۔اور ان کے خلاف بہت اقدامات بھی ہوتے رہے ۔ احمد شاہ ابدالی نے ان کے اوپربہت سے حملے کیے ۔بلکہ ایک موقعے کے اوپر تو اس نے اسی پنجاب میں پچیس ہزار سکھ ایک ہی دن میں مارے تھے۔پھر اورنگ زیب نے بہت دفعہ ان کا تعاقب کیا ۔او ر اس زمانے میں یہ جنگلوں میں چھپ جاتے تھے اور اس طرح ان کا بہت تعاقب کرنا پڑتا تھا ۔پھر بستیوں پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔یہ مزنگ کا چھوٹا قصبہ ہے ۔اس کی تاریخ اگر کبھی آپ پڑھیںتو کم و بیش سات آٹھ دفعہ اس کو سکھوں نے لوٹا۔غارت گری کی وجہ سے ان کے خلاف کارروایاںبھی کرنی پڑتی تھیں۔اسی وجہ سے مسلمانوں میں اور ان میں مخاصمت ہو گئی ورنہ دینی لحاظ سے وہ ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمانوں سے زیادہ قریب تھے۔تو پھر گرو گوبند سنگھ صاحب نے ان کی تنظیم کی اور ان کو ایک باقاعدہ منظم گروہ میں بدلنا شروع کیا۔اس موقعے کے اوپر یہ مذہب بننا شروع ہواتو اس میں پھر کچھ علامتیں بھی بن گئیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد سب سے پہلی حقیقت جس کو بہت بحث کر کے بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے وہ یہ ہے کہ دنیا امتحا ن کی جگہ ہے ۔بس یہ سب سے بڑی حکمت ہے جو انسان جان لے ۔کہ یہ دنیا امتحان کے لئے بنی ہے ۔یہاں نعمت نہیں ملے گی۔یہاں جو کچھ ملتا ہے وہ آزمائش کے لئے ہوتا ہے ۔ یہاں تکلیف آتی ہے تو آزمائش کے لئے ۔یہاں اللہ تعالیٰ کے انعامات ہوتے ہیں تو آزمائش کے لئے۔ جب یہ بات سمجھ میں آ جائے تو پھر اس کے بعد آ پ سے آپ انسان کے اندر وہ رویہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے ۔یعنی پھر وہ جزع فزع نہیں کرتا وہ ا س کے اوپر اللہ تعالیٰ سے شکو ہ نہیں کرتا ۔وہ کوئی بے صبرے پن کا مظاہر ہ نہیں کرتا ۔ تکلیف ،مصیبت جب آتی ہے تو ظاہر ہے کہ انسان رنجیدہ خاطر بھی ہوتا ہے ۔بہت سے نازک مراحل بھی اس پر آجاتے ہیں۔لیکن بہرحال وہ ثابت قدم رہتاہے وہ موقع دیکھئے جو حضرتِ یوسفؑ کے والد پر آیا ۔انہوں نے جب اس موقعے پر اندازہ کر لیا کہ آزمائش بڑی لمبی ہے او ر شروع بھی ہو گئی ہے۔تو فرمایافصبرجمیل اب مجھے اچھے طریقے سے صبر ہی کرنا ہے ۔اور جس موقع کے اوپر کچھ تھوڑی سی بات بھی کی وہ یہ کی کہ انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ میں اپنے غم اور تکلیف کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں ۔اور کسی سے نہیںکرتا ۔تو بس یہ جگہ ہے جہاں آدمی کورہنا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : یہ کوئی شریعت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ شریعت میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں کھڑا کر کے ان کو اللہ کے احکام دیئے گئے ہیں ۔اللہ کی ہدایت پہنچائی گئی ہے۔قرآن نے کہیں یہ بات نہیں کہی، کسی حدیث میں بھی یہ بات بیان نہیں ہوئی ۔اچھی عربی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ایک روایت کا بالکل غلط مدعا لوگوں نے سمجھ لیا ہے ۔حضورؐ نے جو بات کہی اگر اس کی نسبت حضور ؐ کی طرف درست ہے ۔(کیونکہ اس روایت میں یہ اضطراب بھی ہے کہ وہ حضور کی بات ہے یا ایک صحابی نے اپنا تبصر ہ اس میں شامل کر دیاہے۔)تو بھی اس میں جو بات بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں پرکم ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔اور یہ ٹھیک ہے ۔مثال کے طور پر آپ یہ دیکھئے کہ عورت کوکمانے سے نہیں روکا ۔وہ کاروبار کرے ، کمائے لیکن اس کے اوپر گھر چلانے کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ذمہ داری جو ہے وہ مرد کی ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ نے بیا ن کر دیا ہے قرآن میں۔اسی طریقے سے عورت کے اوپر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ جب جہاد کے لئے نفیرِ عام ہو جائے تو وہ نکلے ذمہ داری نہیں ہے اس کے اوپر۔اسی طرح جمعے کے لئے آنا اسکے لئے لازم نہیں ہے ۔اس طرح مسجد کی نما ز اس کے لئے باعثِ فضیلت نہیں ہے ۔وہ گھر میں پڑھے تو زیادہ باعثِ فضیلت ہے ۔تو یہ ذمہ داری کا کم ڈالنا ہے ۔یعنی اس کے اوپر بوجھ کم ڈالا گیا ہے ۔ دنیوی معاملات کا بھی دینی معاملات کا بھی ۔عقل کے کم ہونے نہ ہونے کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔یہ بحث اگر کوئی ہوگی بھی تو یہ نفسیا ت میں ہونی چاہئے ۔یہ حیاتیا ت میں ہو نی چاہئے۔یہ ہمارے علم اور مشاہدے کی بات ہے کہ بچوں میں کتنی عقل ہوتی ہے ؟ عورتوں میں کتنی ہوتی ہے ؟ مردوں میں کتنی ہوتی ہے ؟ پاکستانیوں میں کتنی ہوتی ہے؟ امریکنوں میں کتنی ہوتی ہے ؟یہ آپ بحث کرسکتے ہیں۔ اسلام کا یہ مسئلہ نہیں ہے ۔اسلام میں تو جو بات اللہ تعالیٰ کی ہے وہ یکساں طور پر عورتوں اور مردوں کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے ۔اور یکساں تقاضے ان سے کئے گئے ہیں ذمہ داریاں البتہ ان کی الگ الگ ہیںحالات کے لحاظ سے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: سادہ بات سمجھ لیجئے کہ آپ شادی جس طرح چاہیں کریں۔اس کو اعلانیہ ہونا چاہئے۔یعنی آج شادی ہوئی ہے۔ internet پر ہوئی ہے ،ٹیلی فون پر ہوئی ہے یاسیٹلائیٹ فون پرہوئی ہے ۔یا آپ خلا میں اڑ رہے ہیں وہاں آپ نے کر لی ہے ۔بس دنیا کو پتہ چل جانا چاہئے کہ آپ نے شادی کر لی ہے ۔آج سے آپ میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں ۔ یہ ہے اصل میں اسلام کا تقاضا۔یعنی ایک مرد و عورت کے مابین شادی گویاساری دنیا کے لیے اعلان ِ عام ہے کہ اب ہم قانونی طور پر میاں بیوی ہیں۔یہ ہو جانا چاہئے۔اس کے ذرائع کے بارے میں اسلا م کو بحث نہیں ہے ۔وہ ذرائع حالات کے لحاظ سے تبدیل ہوتے رہیں گے ۔
اس میں اصل چیزیں دو ہیں ۔اعلانیہ ہوناچاہئے اور کسی کے لئے دھوکے اور فریب کا باعث نہ ہو۔سیدھی صاف بات ۔اسی وجہ سے آپ دیکھیں کہ شادی کے موقعے کے اوپر قرآن مجید کی جوچند آیات حضور پڑھتے تھے اور اب بھی پڑھی جاتی ہیں۔اس موقعے پر نصیحت کے لئے۔ان آیات میں ایک آیت یہ ہے کہقولو قولاً سدیدا سیدھی بات کہو۔جو بھی کہنی ہے ۔سیدھی ،سچی ،صاف۔یعنی شادی کا معاملہ کوئی ہیر پھیر کا معاملہ نہیں ہے ۔ شادی ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ ایک معاہدہ ہے۔جو فریقین کو واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے۔ اس کی بس یہ ہی دو چیزیں ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: بات یہ ہے کہ سودممنوع ہے ۔کرایہ بالکل جائز ہے۔ سود صرفی چیزوں پہ ہوتا ہے ۔یعنی ایک چیز میں نے آ پ کوادھار دی ،قرض دی اور وہ چیز ایسی ہے کہ اس کو لازماً فنا ہونا ہے ۔وہ استعمال نہیں کی جاسکتی۔آپ کو آٹا چاہئے۔میں دوں گا آٹا۔کیا کریں گے اسے ؟ کھائیں گے فنا ہو جائے گا ۔اب اس کو پیدا کرنا ہو گا دوبارہ۔یعنی محنت کر کے پھرگندم خریدنی ہو گی پھر آٹاپیدا ہو گا ڈیڑھ سیر۔پھر آپ میرا آٹا لوٹائیں گے۔پیسے خرچ کرنے کے لئے ہوتے ہیں یہ بھی فنا ہو جاتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں صرفی چیزیں۔
استعمال کی چیزیں کیا ہیں ۔یہ میز ہے ۔ آپ کو ضرورت تھی ۔شادی کرنے کی یا تقریرفرمانی تھی ۔آپ نے کہا ذرا میز دے دو استعمال کرنے کے لئے۔آپ استعمال کریں گے ۔اور استعمال کے بعدآپ میری میز اٹھا کے مجھے واپس دے دیں گے۔اس استعمال کا کرا یہ ہو تا ہے ۔
ان صرفی چیزو ں کے اوپر قرآن کہتا ہے۔ قرآن کیا تورات بھی یہ ہی کہتی ہے کہ صرفی چیزیں جو ہیں ان میں آدمی دہری مشقت میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔اگر اس سے اس کے اوپر کچھ مانگا جائے۔ایک وہ اس چیز کو فنا کر بیٹھا ہے ۔اسے دوبارہ پیدا کرے گا ۔اور اس کے اوپر مزید جو دینا ہے وہ بھی پیدا کر کے دینا ہے تو یہ دہری مشقت ہے ۔ فرض کریں کہ آپ نے بیس لاکھ روپیہ مجھے دیا ہے ۔وہ میںنے کاروبار میں لگا لیا۔مجھے کاروبار میں نفع ہویا نقصان وہ ڈوب جائے یا کچھ بھی ہو۔مجھے اب دوبارہ کمانا ہے ۔میں نے اس سے بیٹی کی شادی کر لی ۔ بہرحال کہیں اور سے کمائوں گا تو دو ں گا آپ کو ۔میں نے مکان لیا ہے آ پ سے ۔ مکان میں میں رہ رہا ہوں ۔مالک مکان نے نوٹس دیا میں نے کہا جی دوسرا تلاش کر لیتا ہوں۔خالی کر کے دے دیا آپ کو ۔ یہاں دہر ی مشقت نہیںہے۔ اس پر قرآن مجیدکہتا ہے کہ آپ متعین نفع نہیں لے سکتے۔یہ بات سمجھ لیجئے کہ ممنوع کیا ہے ؟ ممنوع ہے متعین نفع۔اگر مثال کے طور پر میںنے آپ کو دو لاکھ روپیہ قرض دیا ۔اور آپ سے یہ کہا کہ جی میرا قرض آپ کو ہر حال میں واپس کرنا ہے ۔واجب الادا ہے ۔آپ کاروبار کر رہے ہیںاس سے تو اگر کوئی نفع آپ کو ہوتا ہے تو آپ مجھے اس تنا سب سے دیں گے۔اس میں کوئی سود نہیں ہے۔ٹھیک ہے ۔ جائز ہے کوئی حرج نہیں۔آپ کا اصل زر محفوظ ہے ۔آپ اس کا مطالبہ کر سکتے ہیں ۔ نقصان میں شریک نہیں ہیں۔انکار کر دیں اس سے۔اس میں دین کی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کو نفع ہو نقصان ہو مجھے آپ نے اتنے فیصد دینا ہے بس!اس کو منع کیا گیا ہے ۔اسی طرح زمین کا معاملہ ہے ۔زمین میں بھی یہ ہی ہوتا ہے ۔بھئی ٹھیک ہے زمین ہے۔
زمین بیس لاکھ کی ہو سکتی ہے ۔زمین ایک کروڑ کی ہو سکتی ہے۔آپ نے اس میں ایک آدمی سے طے کر لیا کہ میں اس میں کاشت کروں گا ۔اتنے پیسے آپ کو دے دوں گا ۔فصل ہو گئی اچھی بات ہے نہیں ہوئی تو تب بھی ۔کرایہ اس کا دیجئے اس کو ۔یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ نے دکا ن کرائے پر لی ہے چلتی ہے نہیں چلتی آپ کو کرایہ بہرحال دینا ہے ۔تو بعض لوگ اس میں خوامخواہ خلطِ مبحث پیدا کرتے ہیں ۔چنانچہ ایک بڑے عالم تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ انہوں نے بہت اصرار سے یہ کتا ب لکھی ہے کہ کرایہ جو ہے یہ بھی سود ہے ۔تو طالب علموں نے سوال کیا کہ آپ مقالہ پڑھنے کے لئے جس جہاز پر آئے ہیں۔وہ کرایہ ہی تو دے کے آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ پائلٹ کی محنت کا معاوضہ ہے۔ایسی جو باتیں ہیں ان کا پھر یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔آپ ٹیکسی کرایہ پر دیتے ہیں ۔آ پ دیکھیں کہ کرایہ ممنوع قرار دے دیں تو تمدن ختم ہو جائے گا ۔ہم اطمینان سے جاتے ہیں کراچی جائیں۔پشاور جائیں۔تو ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں۔کرایہ ہی دیتے ہیں ۔کرایہ استعمال کا ہے اس کمرے کاجس میں آپ ٹھہرتے ہیں ۔کمرہ خالی کرتے وقت آپ کو کیا کرنا ہوتا ہے ؟ کمرہ دوبارہ بنا کے دینا ہوتا ہے ؟ نہیں!لیکن پیسہ اگر آپ نے دس لاکھ روپیہ لے لیا ہے تو وہ تو بہرحال آپ نے خرچ کرنا ہے ۔اس لیے اس کے اوپر یہ فرق ہے دونوں میں ۔اور اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔
(جاوید احمد غامدی)