ج۔ اس طرح کے نام رکھنے کی گنجائش ہے، تاہم پہچان اور تبرک کے لیے کوئی اور نام رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
جواب : پورے قرآن میں کسی بھی جگہ خواتین کو مساجد میں جانے سے منع نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی احادیث میں خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ بعض لوگ ایک خاص حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ کمرے میں پڑھے۔ لیکن یہ لوگ صرف ایک حدیث پر زور دیتے رہے ہیں اور باقی تمام احادیث کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب 27 گنا زیادہ ہے۔ ایک خاتون نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شیرخوار بچے ہیں اور ہمیں گھر کا کام کاج کرنا ہوتا ہے ہم کس طرح مسجد میں آ سکتی ہیں۔ تو جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے مسجد کی بہ نسبت گھر میں گھر کے صحن کی بہ نسبت کمرے میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ اگر اس کے بچے چھوٹے ہیں یا کوئی اور مسئلہ ہے تو اسے وہی ثواب ملے گا جو مسجد میں نماز پڑھنے کا ہے۔
متعدد احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کو مسجد میں آنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو۔" ایک اور حدیث کا مفہوم ہے۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہروں کو کہا کہ اگر ان کی بیویاں مسجد میں جانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔"اس طرح کی متعدد احادیث میں ہیں۔ میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسلام خواتین کو مسجد میں آنے سے نہیں روکتا۔ شرط یہ ہے کہ مسجد میں خواتین کے لیے انتظام اور سہولت موجود ہو کیونکہ مرد اور عورت کے اختلاط کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔اگر آپ سعودی عرب جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ خواتین مساجد میں آتی ہیں اگر آپ امریکہ جائیں یا لندن جائیں تو وہاں بھی خواتین مسجد میں نماز پڑھتی ہیں۔ صرف ہندوستان اور کچھ اور ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتیں۔یہاں تک کہ حرم شریف اور مسجد نبوی میں بھی خواتین کو آنے کی اجازت ہے۔ ہندوستان میں بھی اب بعض مساجد میں خواتین کے لیے اہتمام ہوتا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ مزید مساجد میں بھی یہ اہتمام ہو گا۔
(ڈاکٹر ذاکر نائیک )
جواب :مسلمانوں میں تعمیرمساجد کی سنت کا مقصد اصلاً اللہ کی عبادت ہے۔ ذرا دقت نظر سے دیکھا جائے تو مساجد اصلاً پانچ وقت کی لازمی نمازوں کی جماعت،نمازِ جمعہ وعیدین اور اعتکاف کی عبادت کے لیے قائم کی جاتی ہیں،تاہم ثانوی طور پر اِن میں تطوع نمازوں کا ادا کرنا، قرآن مجید کی تلاوت کرنا،دین کی تعلیم وتعلم کا اہتمام کرنا،غرضیکہ اللہ کی بندگی کی طرف لے جانے والے ہر عملِ خیر کا مسجد میں ہونا پسندیدہ اْمور میں سے ہے۔ جہاں تک مساجد میں لوگوں کی باہمی بات چیت اور گفتگو کرنے کا تعلق ہے تو اِس کا حکم مندرجہ ذیل نکات سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے :
1۔ مسجد کی حیثیت چونکہ ایک اجتماعی معبد کی ہے۔ اس لیے اِس میں کسی بھی قسم کی باہمی گفتگو ایسے انداز،آواز اور لب لہجے میں کرنا جو حاضرینِ مسجد کی عبادت میں خلل پیدا کرے یا اْن کے خشوع وخضوع کو مجروح کرے یا اْن کے لیے تشویش کا باعث بن جائے؛ قطعاً مناسب نہیں ہے۔اِس طرح کی بات چیت سے بہرحال اجتناب کرنا چاہیے۔
2۔ ہر وہ گفتگو جو مسجد کی حدود سے باہر ناجائز ہے ،وہ مسجد میں بطریق اْولٰی ممنوع ہے۔
3۔ ملاقات کے موقع پر دعا وسلام کرنا ، ایک دوسرے کے احوال پوچھنا اور دینی یا دنیوی امور پر کچھ گفتگوکر لینا جس طرح باہر مباح ہے،مسجد کے اندر بھی مباح ہیں۔ اِن کی حرمت یا کراہت پر قرآن وحدیث میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ تاہم مسجد چونکہ اللہ کی عبادت کا گھر ہے ، اِس لیے اْس میں گفتگو کرتے ہوئے دو اْمور کی رعایت اور اْن پر تنبہ ضروری ہے :
ایک یہ کہ گفتگو ایسی ہو کہ آواز اور لب ولہجہ سے حاضرینِ مسجد کے لیے کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ مباح اْمور پر کلام کرتے ہوئے بھی مسجد کی حیثیت ،مقصد اور اس کی روح کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے کثرت کلام سے اجتناب کیا جائے۔
4۔ مسجد میں خرید وفروخت اور کاروباری نوعیت کی بات چیت کرنا،کھیل اور تفریح پر گفتگو کرنا ، باہر کوئی چیز کھو گئی ہو تو مسجد کے اندر آکر حاضرین کے سامنے اْس کا اعلان کرنا،شعر وشاعری کی مجلس لگانا؛یہ تمام اقسامِ کلام مَعابد کی روح کے صریح منافی ہونے کی بنا پرمسجد کے احاطے میں قطعاً مناسب نہیں ہیں۔ چنانچہ اِن سے بہرصورت احتراز کیا جائے۔
بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید وفروخت کرنے،کھوئی ہوئی چیز کا اعلان کرنے اور شعر وشاعری کرنے سے منع فرمایا ہے۔
جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اْس حدیث کا تعلق ہے جس کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے کہ "مسجد میں بات چیت کرنا آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح چوپائے گھاس کو یا آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے "؛ یہ ناقابل التفات روایت ہے۔ علمِ روایت کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اس حدیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ جب اِس کا استناد ہی آپ سے ثابت نہیں ہے تو علم کی دنیا میں اِس سے اخذ کیے جانے والے حکم کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس روایت کے بارے میں یہی رائے امام ناصر الدین البانی نے پیش کی ہے۔ملا علی قاری نے بھی اِسے "موضوعات" یعنی من گھڑت روایات میں شمار کیا ہے۔یہ روایت اپنے متن کے لحاظ سے بھی کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ اِس کے بالکل برعکس صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سَمْرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مستند روایت میں نقل ہوا ہے کہ فجر کی نماز پڑھانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طلوع آفتاب تک اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے۔ پھر سورج کے طلوع ہوجانے کے بعد جب آپ اْٹھتے تو اپنے صحابہ کو دور جاہلیت کی باتوں میں محو ِگفتگو اور ہنستے ہوئے پاتے تو اْس موقع پر آپ بھی مسکراتے۔ (مسلم ، رقم : 670)
(مولانا عامر گزدر)
جواب:ہمارے ملک میں مساجد بالعموم محلے کے زیر انتظام چل رہی ہیں۔ اصولا جمعہ اور عیدین کی نماز کا اہتمام حکومت کو کرنا چاہیے اور علاقے کے حاکم یا اسی کے مقرر کردہ امام کو امامت کرانی چاہیے۔آپ کے مسئلے کا دینی حل یہی ہے۔ لیکن اس اصول پر مسئلہ حل ہو جائے اس کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے۔لہذا مسئلہ حل کرنے کا اس کا سوا کوئی راستہ نہیں کہ ہم کوئی اچھی حکمت عملی اختیار کریں۔دیہی علاقوں میں صورت حال جیسا کہ آپ کے علاقے کی مثال سے بھی واضح ہے کافی پیچیدہ ہوتی ہے۔ وہاں لوگ علاقے کے بڑے لوگوں کی گرفت میں ہوتے ہیں اور انھیں بڑے شہروں کے رہنے والے لوگوں کی طرح فیصلے کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر یہ بڑے لوگ نیک اور خوش اخلاق ہوں تو لوگ اطمینان سے رہ لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں تکلیف دہ حالات سے دوچار رہتے ہیں۔پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اس صورت حال کو مان کر سوچنا چاہیے۔ وہ خارجی حالات جن کو تبدیل کرنے میں بہت سی دشواریاں حائل ہوں اور جن سے ٹکرانے کے نتیجے میں مشکلات بڑھ تو سکتی ہوں ان کے دور ہونے کا کوئی امکان نہ ہوان سے معاملہ حکمت اور دانش سے کرنا چاہیے۔میری تجویز یہ ہے کہ مسجد کے انتظام کو پہلے مرحلے میں ایک کمیٹی کے سپرد کرنا چاہیے۔ یہ کمیٹی ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جو نائب ناظم یا علاقے کے مؤثر لوگوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے معاملہ کر سکتے ہوں۔ یہ کمیٹی کسی جھگڑے کو مول لیے بغیر آہستہ آہستہ علاقے کے بڑے لوگوں سے فیصلے کرنے کا حق منوا لے۔ شروع میں اگر اس طرح کا کوئی بڑا آدمی کمیٹی میں شامل ہو تو منزل جلدی حاصل ہو سکتی ہے۔اس معاملے میں مولوی صاحب کا کردار بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اگر کوئی ایسا آدمی امام صاحب کی حیثیت سے دستیاب ہو جائے جسے اس طرح کے لوگوں سے نمٹنے کا تجربہ ہو اور وہ اپنے اخلاق وکردار اور علم سے ان کے دل میں اپنا احترام پیدا کر لے تو اس طرح کی ناگوار صورت حال کے امکانات مزید کم ہو جاتے۔
محکمہ اوقاف کے حوالے سے مجھے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کو محکمہ اوقاف سے رابطہ کرنا چاہیے اور ان کے قواعد وضوابط معلوم کرکے آپ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ مسجد اس محکمے کے زیر انتظام آجائے۔ علاقے کے بڑے لوگ اس کے بعد مداخلت سے باز آجائیں گے اس کا امکان مجھے کم ہی نظر آتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب۔ مسجدِ نبوی میں نمازیں پڑھنا اور روضہ أقدس کی زیارت کرنا اصلاً حج کے مناسک کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ جب انسان سفر کرے تو محبت رسول کا تقاضا ہے کہ اسے مدینہ بھی جانا چاہیے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: ایک ادب قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا منع ہے، الا یہ کہ محض گزر جانا پیش نظر ہو۔ دوسری بات سنت سے معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ کہ مسجد میں داخل ہونے پر دو نفل رکعت پڑھی جائیں ۔باقی جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اصل میں اس رویے کا بیان ہے جو ایک بندہ مومن کو خدا کے گھر میں فطری طور پر اختیار کرنا چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: ایسے بچے کو تو لانا نہیں چاہئے جو لوگوں کی نماز میں خلل انداز ہو۔ سمجھدار بچوں کو لایا جا سکتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: نبیﷺ کے زمانے میں تو عورتیں عموماساری نمازوں میں مسجد میں حاضر ہوتی تھیں ۔اس لئے اس کا اہتمام کیا جائے تو یہ بالکل ٹھیک ہوگا اس میں کوئی خرابی کی بات نہیں ہے ۔اور حضور ﷺ کے زمانے میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں خاص طور پر آتی تھیں۔عیدین کی نمازوں میں تو حضور نے ان خواتین کوبھی پابند کیا کہ جو ایام سے تھیں کہ وہ صرف خطبہ سننے کے لئے آجا ئیں۔لیکن آئیں ضرور۔نبی ﷺ کے زمانے میں تو طریقہ یہ تھا ۔اب ہمارے ہاں تو ظاہر ہے کہ اس کا اہتمام نہیں ہوتا ۔تاہم عام پانچ نمازوں میں حضورؐ نے یہ بات کہہ دی ہے کہ عورتیں اگر نہیں آئیں گی مسجد میں تب بھی ان کو اجر مل جائے گا ۔یعنی چونکہ ان کے اوپر لازم نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے وہ آجائیں تواچھی بات ہے نہ آئیں گھر میں پڑھیں تب بھی ان کو مسجد کی نماز کا اجر مل جائے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب:مسجد کی تعمیرِ نو کے سلسلے میں اگر بیت الخلا کی جگہ تبدیل کرنا مقصود ہے تو یہ مصالح مسجد میں سے ہے۔ ایسی صورت میں اگر نقشہ کے مطابق بیت الخلا ایسی جگہ پر آ رہی ہیں جہاں پہلے مسجد شرعی تھی تو بامر مجبوری ایسا کرنا جائز ہے۔فقہی قاعدہ ہے کہ ‘الْأُمُورُ بِمَقَاصِدِہَا’ یعنی ہرکام کی اچھائی اور برائی کا دارومدار اس کے مقصد پر ہے۔ مسئلہ ہذا میں مسجدِ شرعی کی جگہ کسی اور استعمال میں لانے کا مقصد مسجد کی اہانت یا اسے غیرآباد کرنا نہیں بلکہ یہ تغیر و تبدل مسجد میں توسیع کی غرض سے ہو رہا ہے اور مقصود نمازیوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے، اس لیے یہ جائز ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری
جواب: ایسے بچے کو تو لانا نہیں چاہئے جو لوگوں کی نما ز میں خلل انداز ہو۔سمجھدار بچوں کو لایا جا سکتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
شریعت میں مسجد کے لیے کوئی خاص طرز تعمیر مقرر نہیں ہے، اس لیے کسی خاص طرز پر مسجد بنانا نہ فرض ہے نہ ممنوع۔ صاحب مضمون کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ جس طور پر حضورﷺ نے مسجد نبوی ابتداء ً تعمیر فرمائی تھی، تمام مساجد ہمیشہ کے لیے اسی طرز پر تعمیر ہونی چاہییں۔ مختلف مسلمان ملکوں میں مساجد کی تعمیر کے لیے ہمیشہ سے مختلف ڈیزائن اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں جس قاعدے کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مسجد کی شکل عام عمارت سے اتنی مختلف ہو اور اپنے ملک یا علاقے میں ایسی جانی پہچانی ہو کہ اس علاقے یا ملک کا ہر شخص دور سے اس کو دیکھ کر یہ جان لے کہ یہ مسجد ہے اور اسے نماز کے وقت مسجد تلاش کرنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے۔ اسی قاعدے کے مطابق دنیا کے مختلف ملکوں میں مسجد کا ایک خاص طرزِ تعمیر ہوتا ہے اور اس کے لیے ایسی نمایاں علامات رکھی جاتی ہیں جو ان ملکوں میں مسجد کی امتیازی علامات ہونے کی حیثیت سے معروف ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی مساجد کا بالعموم ایک طرزِ تعمیر رائج ہے۔ اس کو بدل کر بالکل ایک نرالا طرز تعمیر رائج کرنا اور اس کے لیے مسجد نبوی کے ابتدائی طرز سے استدلال کرنا خواہ مخواہ کی اپچ
ہے۔رہا منبر، تو یہ ثابت ہے کہ نبیﷺ نے خود مسجد نبوی میں لکڑی کا منبر بنوایا تھا تاکہ خطبہ دیتے وقت بڑے مجمع میں خطیب سب لوگوں کو نظر آسکے۔
محراب مسجدوں میں تین مصلحتوں سے رکھی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ آگے چونکہ صرف امام کھڑا ہوتا ہے اس لیے تھوڑی سی جگہ اس کے لیے زائد بنادی جاتی ہے تاکہ محض ایک آدمی کے لیے پوری ایک صف کی جگہ خالی نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ محراب کی وجہ سے امام کی آواز پیچھے کی صفوں تک پہنچنے میں سہولت ہوتی ہے۔ تیسری مصلحت یہ ہے کہ محراب بھی مسجد کی امتیازی علامات میں سے ہے۔ کسی عمارت کو آپ پشت کی طرف سے بھی دیکھیں تو اس میں محراب آگے نکلی دیکھ کر فوراً پہچان جائیں گے کہ یہ مسجد ہے۔ یہی مصلحت مسجد پر مینار وغیرہ بنانے کی بھی ہے۔