جواب: عقل و نقل کے عنوان سے کوئی مستقل کتاب کسی نے لکھی ہو تو میرے علم میں نہیں ہے لیکن جن حضرات نے عقل و نقل کے تقابل پر کتابیں لکھی ہیں اس میں ایک نام مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ہے جن کی تین کتابیں مفید ہیں ایک المصالح العقلیہ ہے جو کسی عربی کتاب کا آزاد ترجمہ اور تلخیص ہے انہی کی ایک کتاب اور ہے جس کا انگریزی ترجمہ Answer to Modernismکے نام سے ہو ا ہے جس میں انہوں نے آج کل کے معاملات کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں بتا ئی ہیں کہ اسلامی نقطہ نظر کو Formulateکرتے ہوئے کن اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے ایک آدھ کتاب ان کی اور ہے کو ئی خاص کتاب آپ کے ذہن میں ہو تو میں نہیں جانتا۔
جواب : یہ کوئی شریعت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ شریعت میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں کھڑا کر کے ان کو اللہ کے احکام دیئے گئے ہیں ۔اللہ کی ہدایت پہنچائی گئی ہے۔قرآن نے کہیں یہ بات نہیں کہی، کسی حدیث میں بھی یہ بات بیان نہیں ہوئی ۔اچھی عربی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ایک روایت کا بالکل غلط مدعا لوگوں نے سمجھ لیا ہے ۔حضورؐ نے جو بات کہی اگر اس کی نسبت حضور ؐ کی طرف درست ہے ۔(کیونکہ اس روایت میں یہ اضطراب بھی ہے کہ وہ حضور کی بات ہے یا ایک صحابی نے اپنا تبصر ہ اس میں شامل کر دیاہے۔)تو بھی اس میں جو بات بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں پرکم ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔اور یہ ٹھیک ہے ۔مثال کے طور پر آپ یہ دیکھئے کہ عورت کوکمانے سے نہیں روکا ۔وہ کاروبار کرے ، کمائے لیکن اس کے اوپر گھر چلانے کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ذمہ داری جو ہے وہ مرد کی ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ نے بیا ن کر دیا ہے قرآن میں۔اسی طریقے سے عورت کے اوپر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ جب جہاد کے لئے نفیرِ عام ہو جائے تو وہ نکلے ذمہ داری نہیں ہے اس کے اوپر۔اسی طرح جمعے کے لئے آنا اسکے لئے لازم نہیں ہے ۔اس طرح مسجد کی نما ز اس کے لئے باعثِ فضیلت نہیں ہے ۔وہ گھر میں پڑھے تو زیادہ باعثِ فضیلت ہے ۔تو یہ ذمہ داری کا کم ڈالنا ہے ۔یعنی اس کے اوپر بوجھ کم ڈالا گیا ہے ۔ دنیوی معاملات کا بھی دینی معاملات کا بھی ۔عقل کے کم ہونے نہ ہونے کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔یہ بحث اگر کوئی ہوگی بھی تو یہ نفسیا ت میں ہونی چاہئے ۔یہ حیاتیا ت میں ہو نی چاہئے۔یہ ہمارے علم اور مشاہدے کی بات ہے کہ بچوں میں کتنی عقل ہوتی ہے ؟ عورتوں میں کتنی ہوتی ہے ؟ مردوں میں کتنی ہوتی ہے ؟ پاکستانیوں میں کتنی ہوتی ہے؟ امریکنوں میں کتنی ہوتی ہے ؟یہ آپ بحث کرسکتے ہیں۔ اسلام کا یہ مسئلہ نہیں ہے ۔اسلام میں تو جو بات اللہ تعالیٰ کی ہے وہ یکساں طور پر عورتوں اور مردوں کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے ۔اور یکساں تقاضے ان سے کئے گئے ہیں ذمہ داریاں البتہ ان کی الگ الگ ہیںحالات کے لحاظ سے ۔
(جاوید احمد غامدی)