جواب:جدید تاویلات ایک بے معنی ترکیب ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر زمانے میں نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ان کو حل کرنے کے لیے نصوص سے استنباط کیا جاتا ہے۔ اصول استنباط میں بھی بہت سے اختلافات ہیں اور ان کے اطلاق میں بھی اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ ہر مکتب فکر کچھ آراء ونتائج میں دوسرے سے مختلف ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ لوگوں کا کام ہے۔ جب تک وہ نام واضح نہ ہو اس کے اثرات بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:اس کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ دین کا ماخذ صرف قرآن وسنت کو مانا جائے اور ان کو پڑھنے اور ان سے استنباط کرنے میں ساری سعی اس بات کی ہو کہ شارع کا منشا کیا ہے۔ باہر سے کوئی نتیجہ یا رائے قائم کرکے اسے قرآن وسنت سے مؤکد کرنے کی کوشش درحقیقت دین سازی ہے ۔ یہ بات کسی صورت میں درست نہیں ہے۔ یہاں میں پھر یہ عرض کروں گا کہ جدید تاویلات و تعبیرات کی ترکیب مبہم ہے۔ دین کے مقصد کو طے کرنے میں اور شریعت کے اصول ومقاصد کے تعین میں قدیم سے اختلافات ہیں۔ ہروہ فہم دین وشریعت جو فہم متن کے مسلمہ اصولوں پر مبنی ہو وہ درست ہے اصل سوال یہ ہے کہ کسی شخص کا کام دین کو اور شارع کے منشا کو سمجھنے کی کوشش ہے یا نہیں۔ صحت کا معیار نہ قدیم ہے اور نہ جدید۔ جو بات اوفق بالقرآن والسنہ ہے وہی حق ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: مراقبہ لغوا ًنگرانی اور نگہبانی کے معنی رکھتا ہے۔ اسی سے اس میں غور وفکر اور خدا کے تعلق کی نسبت سے اپنے ایمان وعمل کا جائزہ لینے کے معنی پیدا ہو گئے ہیں۔ مزید برآں انسان کے تصور کرنے کی صلاحیت پر ارتکاز کے لیے بھی مراقبے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ صوفیہ کے مقامات کی سیر غالباً اسی نوع کے مراقبے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ نہ دین میں اس طرح کے کسی عمل کی تعلیم دی گئی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : پندرہ علوم سے ہمارے ہاں متداول علوم مراد ہیں۔ مثلاًفہم کلام کے لحاظ سے: لغت، نحو، صرف، بلاغت، بیان اور اصول تفسیروغیرہ، حدیث کے ضمن میں رجال، روایت اور درایت کے اصول، فقہ کے حوالے سے اصول فقہ اور خود فقہ، علوم عقلیہ میں فلسفہ، منطق اور علم کلام اور تاریخ میں سیرت اور اسلامی تاریخ ۔اسی طرح خود قرآن مجید اور سنت اور حدیث سے براہ راست واقفیت وغیرہ۔ میں نے آپ کو ذہن میں موجود معلومات کو سامنے رکھ کر ایک اصولی جواب دیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس موضوع پر لکھی کتابوں میں اس تفصیل میں کچھ فرق ہو۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے ایک رواج کو نا پسند فرمایا تھا۔ کچھ لوگ طمطراق اور طنطنہ ظاہر کرنے کے لیے عربوں میں رائج ازار کے لباس تہبند کو اتنا نیچے باندھتے تھے کہ وہ چلتے وقت زمین پر گھسٹتا رہے۔ ظاہر ہے، یہ گھمنڈ ہے جسے ہمارے دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ہماری امت میں دو نقطہ نظر رائج ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق علت کو اہمیت دی جائے گی اور لباس کی ہر وہ ہیئت ناپسندیدہ قرار دی جائے گی جس کا محرک تکبر ہو۔ چنانچہ ٹخنوں کا ننگا ہونایا ڈھکا ہونا اس معاملے میں غیر اہم ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کے معاملے میں ٹخنوں کو ننگا رکھنے کا حکم دیا تھا۔ لہذا کوئی بھی لباس ہو ٹخنے ہر حال میں ننگے رکھے جائیں گے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل اہمیت علت کی ہے۔ اگر کسی لباس میں نیچے رکھنے سے تکبر کی علت نہیں ہے تو ٹخنے ننگے رکھنا ضروری نہیں رہتا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:عام طور پر ایک روایت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر غلطی ہو تو ایک اجر ہے اور اگر درست ہو تو دہرا اجر ہے۔ اس روایت کے بارے میں کچھ قیل وقال ہے۔ لیکن قرآن میں اجر کے مرتب ہونے کے جو اصول بیان ہوئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات ٹھیک لگتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس غلطی پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے جس میں آدمی کا اپنا ارادہ اور نیت شامل نہیں ہے۔مجتہد یا قاضی چونکہ صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ غلطی کے باوجود اسے اجر ملنا سمجھ میں آتا ہے۔ درست فیصلے یا نتیجے پر دہرا اجر درحقیقت اس محنت کا عوض ہے جو اس نے صحیح بات تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرکے کی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:صحابہ کی دین میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ ہمارے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جماعت صحابہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو دین کے منتقل ہونے کا ذریعہ بنی ہے۔ چنانچہ وہ دین جو ان کے اجماع سے امت کو منتقل ہوا ہے وہ امت کے لیے واجب الاتباع ہے۔ اس کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ باقی رہیں ان کی آراء یا ان کے ذریعے سے امت کو ملنے والی اخبار آحاد تو ان کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے لیکن ان کو قبول کرنے کے لیے انھیں روایت درایت اور فہم کے اصولوں پر پرکھا جائے گا۔ اگر درست ہوں گی تو مان لی جائیں گی ورنہ دوسری رائے قائم کرنے کا رستہ اختیار کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ امت کے ائمہ نے اس باب میں یہی راستہ اختیار کیا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:نماز پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ساتر اور موزوں لباس پہنا ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ چیز معاشرے کے معروف پر مبنی ہیں۔ سر کا ڈھانکنا شرائط نماز میں شامل نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معاشرے کے معمول کا لباس پہنتے تھے۔ اگر کسی چیز کو اسوہ قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ بھی یہی ہے کہ معاشرے کے معروف کے مطابق رہن سہن اور طعام ولباس اختیار کیا جائے الا یہ کہ وہ دین کے کسی حکم کے منافی ہو۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:ٹائی کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ محض تزئین کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک مذہبی علامت کی ہے اور یہ صلیب کا نشان ہے۔ اولاً تو اسی بات کو ثابت کرنے میں مسائل ہیں۔ ثانیاًاب تمام دنیا میں کوٹ پتلون اور ٹائی کا رواج ہے اور اگر اس کا کوئی مذہبی پس منظر تھا بھی تو اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اس کو ایک تزئینی لباس کے طور پر ہی پہنا جاتا ہے۔ ٹائی پہننے میں اصولاً کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:دین میں اصل اہمیت صبر کی ہے۔ صبر سے مراد ثابت قدمی اور استقامت ہے دین پر عمل کرنے کے حوالے سے ۔ سوسائٹی کے حوالے سے ایک مسلمان پر دین کی رو سے عائد ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے استقامت یعنی صبر کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور اسی پردین و دنیا کے اعلی نتائج منحصر ہیں۔ صبر محض ایک نئی اصطلاح ہے۔ غالباً اس سے مراد کسی طرح کے اقدام سے گریز ہے۔ یہ اصطلاح کسی حکمت عملی کے لیے تو شاید ناگزیر ہو لیکن دینی زندگی کے لیے یہ ایک بے معنی بات ہے۔ دین کا ہر حکم دین میں بیان کی گئی شرائط کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔ کسی خود ساختہ حکمت کو دینی قرار دینا کسی طرح موزوں نہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:بنیادی اختلاف ایک ہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسی ہستیوں کو ماننا جو براہ راست اللہ تعالی سے رہنمائی پاتی ہوں اور خطا سے محفوظ ہوں اور دین میں اصل انحصار انھی پر ہو۔باقی دینی اختلافات بالعموم اسی فرع سے پھوٹے ہوئے ہیں۔ باقی رہا دور اول کا سیاسی جھگڑا تو اس کے دینی اور سیاسی اثرات بھی اہم ہیں لیکن اس معاملے میں امت کے بہت سے لوگ اہل تشیع کے ہمنوا ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف کرنا ایمان کے منافی ہے۔ البتہ اہل علم اس بات میں اختلاف کرتے ہیں کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے پیش کی جارہی ہے وہ اپنی نسبت میں درست ہے یا نہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : ولایت کوئی منصب نہیں ہے۔ لہذا اس کے لیے دلیل کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ اگر کسی شخص سے اس طرح کا کوئی واقعہ صادر ہوتا ہے تو یہ ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مقبول بارگاہ ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات میں افسانہ زیادہ اور حقیقت کم ہی ہوتی ہے۔ باقی رہا نبوت کا معاملہ تو اسے کئی طرح کے دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے ۔ معجزہ ان میں سے ایک ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : اذان کے بعد کی دعا میں دونوں صورتیں درست ہیں۔ میرے علم کی حد تک اس میں مسجد کے اندر یا باہر کا فرق بھی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ دعا ہاتھ اٹھائے بغیر مانگی جاتی ہے۔ اذان کا جواب دینے میں اگر آپ چاہیں تو ہر اذان کا جواب دیں اور اگر ایک اذان کا جواب دیں تو اس میں بھی حرج نہیں۔ اسی طرح چاہیں تو ایک اذان کے بعد دعا مانگیں اور چاہیں تو ہر اذان کے بعد دعا کریں۔ یہ امور نفلی ہیں ۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : شادی بیاہ کی رسومات ہر سماج میں مختلف ہیں۔ ان کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان پر عمل کرنے میں حرج نہیں ہے۔ بارات کا کھانا ہم اپنے سماجی مصالح کے تحت اگر موزوں نہ سمجھتے ہوں تو اسے ختم بھی کر سکتے ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :بنیادی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے جملے کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک قسم کی ہے۔یہ ایک ناموزوں اور حق تلفی پر مبنی قسم ہے اسے توڑنا لازم ہے۔ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ان صاحب کو بس یہ کرنا ہے کہ یہ قسم کا کفارہ ادا کردیں اور اپنی سسرال میں نارمل زندگی گزاریں۔
قسم کا کفارہ یہ ہے: ‘‘قسم کھانے والا دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جو وہ عام طور پر اپنے اہل وعیال کو کھلاتا ہے، یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے یا غلام آزاد کرے۔ان میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو اسے تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے۔’’
(مولانا طالب محسن)
جواب : امت میں اس بات کا کوئی بھی مدعی نہیں ہے کہ حدیث شریف میں قرآن پاک کی مکمل وضاحت ہے۔ بلکہ اصل صورت معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست نسبت سے قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے میں وضاحت پر مشتمل احادیث کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی۔ البتہ حدیث کا بہت بڑا حصہ سنت پر حضور کے عمل کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے بڑے بڑے مؤیدین بھی تفسیری اور فقہی کام کی نفی نہیں کرتے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : وسیلہ کا عربی میں مطلب قرب ہے۔ اردو کے لفظ وسیلہ کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اللہ تعالی سے عبد ومعبود اور دعاومناجات کے تعلق کے لیے کسی طرح کے واسطے کی ضرورت نہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ سحر ایک فن ہے جو سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ اس کا دائرہ عمل کیا ہے ؟ اس ضمن میں قرآن وحدیث سے کوئی بات طے کرنا موزوں نہیں ۔ اس لیے کہ ان میں اس کا تذکرہ کچھ واقعات کے حوالے سے آیا ہے ۔ براہ راست اس فن کو موضوع نہیں بنایا گیا۔یہ سرتاسر تجربے پر موقوف ہے۔اس فن کے لوگ اسے باقاعدہ علم کی شکل نہیں دے سکے لہذا اس کے نتائج کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ البتہ ہمیں قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس فن کی ایک صورت غالباً جسے کالا علم کہا جاتا ہے کفر ہے۔ اور دوسری صورت بھی ایک فتنہ ہے۔ لہذا ان سے گریز ہی بہتر ہے۔ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں پڑھ کر پھونکنے میں حرج نہیں اور اگر ضرورت ہو تو لکھ کر تعویز بھی بنایا جا سکتا ہے۔لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ عمل کرنے والا اپنے لیے خود کرے ۔پڑھ کر اپنے اوپر پھونکنے کاعمل حضور سے روایات میں بیان ہوا ہے لیکن تعویزکرنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : آپ کی یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید میں جس چیز کو جرم قرار دیا گیا ہے وہ سود خوری ہے۔ آپ نے جس اختلاف کا ذکر کیا ہے اس کا باعث قرآن مجید کی کوئی آیت نہیں ہے۔ سود دینے کو گناہ قرار دینے والوں کی بنائے استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ مسلم میں نقل ہوا ہے: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٰکل الربوٰا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال: ہم سواء۰(مسلم،رقم۱۵۹۸) ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے اور اس دستاویز کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔’’
اس روایت کے لفظ ـ‘مؤکل’ (کھلانے والے) کا اطلاق عام طور پر علماء اس آدمی پر کرتے ہیں جو قرض پر سود ادا کرتا ہے۔بعض علما ـ‘مؤکل’ کا لفظ سودی کاروبار کے ایجنٹ کے لیے کہتے ہیں۔ اس لفظ کاعام طور پر طے کردہ مفہوم ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک، سود ادا کرنا ایک کوتاہی ضرور ہے لیکن اسے اسطرح حرام قرار دینا مناسب نہیں جس طرح سود لینا حرام ہے
(مولانا طالب محسن)
جواب : انشورنس کے نظام میں اصولاً کوئی غلطی نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی ادارہ لوگوں سے پیسے لے کر ان کو اس وقت ادا کردے جب پہلے سے طے کردہ ضرورت سامنے آجائے۔ یہ ادارہ کوئی کاروبار کرکے اس سرمائے میں اضافہ کرے اور اس اضافے کی ایک شرح لوگوں کی رقوم میں شامل کرتا رہے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ ہمارے ملک میں انشورنس کے ادارے سرمایہ کاری سودی طریقے پر کرتے ہوـں۔ اس صورت میں صرف یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس طرح کے ادارے سے انشورنس نہ کروائی جائے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی آنکھ ہی اس وقت کھلی ہے جب سورج طلوع ہو چکا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ یہ نماز ‘‘ادا نماز’’ قرار پائے گی ۔ دوسری یہ کہ نماز سستی اور غفلت کی وجہ سے رہ گئی ۔ اس صورت میں یہ نماز قضا ہوگی۔ مکمل نماز سے غالباًآپ کی مراد،دو سنت اوردوفرض یعنی چار رکعت پڑھنا ہے۔ دو سنت اصل میں نفل نماز ہے اور احناف اسے سنت اس لیے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مداومت کے ساتھ پڑھے ہیں۔ بہرحال ان کا پڑھنا دونوں صورتوں میں لازم نہیں ہے ۔ لیکن ان کی ادائی کا اجر بہت زیادہ ہے ۔ اس لیے دونوں صورتوں ہی میں اسے پڑھنا افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی یہی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : اس معاملے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قضا نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ دوسری یہ کہ اس کوتاہی پر خدا سے توبہ کرنی چاہیے۔آئندہ نمازوں میں پابندی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا فوراً ازالہ کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ایک اندازہ قائم کرکے قضا نمازیں پڑھ لینی چاہئیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مشورہ یہ ہے کہ سنن کی جگہ اگر یہ نمازیں پڑھ لی جائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالی دونوں کا اجر ادا کر دیں گے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قرآن مجید کی ایک آیت کی مراد سے متعلق ہے اور دوسرا مولوی صاحب کی رائے پر مشتمل۔ جہاں تک آیت کریمہ کا تعلق ہے تو اس میں نجات اخروی کا اصل الاصول بیان کیا گیا ہے۔ ہماری ایمانیات کی اصل صرف یہ ہے کہ ہم اس کائنات کے خالق ومالک کے وجود اور اس کے حضور جواب دہی پر ایمان رکھتے ہوں۔ کتابوں، فرشتوں اور نبیوں پر ایمان اس ایمان کے ایک تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتاہے۔(ان تین چیزوں میں بھی اصل کی حیثیت انبیا کی ہے۔ کتابوں اور فرشتوں پر ایمان اس کے لواحق میں سے ہے) لیکن یہ تقاضا ایک ایسا تقاضا ہے جس کے پورا نہ کرنے کا نتیجہ جہنم کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اگر کسی شخص کو یہ واضح ہے کہ فلاں شخص خدا کا پیغمبر ہے تو اس کی نیکیاں اورخدا اور آخرت پر ایمان اکارت چلا جائے گا اگر وہ اس شخص کو خدا کا پیغمبر نہیں مانتا اور اس کے لائے ہوئے دین کو اختیار نہیں کر لیتا۔اس وضاحت سے آپ یہ بات سمجھ گئے ہوں گے کہ مولوی صاحب کی بات ادھوری ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ہر وہ نیک غیر مسلم جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین ہے وہ اگر مسلمان نہیں ہوتا تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اس کی ساری نیکیاں رد کر دی جائیں اور عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔
(مولانا طالب محسن)