جواب : امت میں اس بات کا کوئی بھی مدعی نہیں ہے کہ حدیث شریف میں قرآن پاک کی مکمل وضاحت ہے۔ بلکہ اصل صورت معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست نسبت سے قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے میں وضاحت پر مشتمل احادیث کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی۔ البتہ حدیث کا بہت بڑا حصہ سنت پر حضور کے عمل کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے بڑے بڑے مؤیدین بھی تفسیری اور فقہی کام کی نفی نہیں کرتے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :اسلام میں داخل ہونے سے کیا مراد ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہمارے پاس ان سے دین سیکھنے اور جاننے کا براہ راست موقع ہو تو کسی فقہ کے ساتھ تمسک کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ عملاً معاملہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت کے عالم ہوں تب بھی بہت سے معاملات میں ہمیں دوسرے علما کی رائے اور سوچ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔ عام آدمی جو قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ نہیں کر سکتا وہ علما کی آ را قبول کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رکھتا ۔ اس کو یہ مشورہ دینا مہلک ہے کہ تم براہ راست قرآن و سنت سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے اسے اختیار کرو اور کسی عالم کی را ئے اور تحقیق کیطرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھو۔ عام آدمی کو صحیح مشورہ یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت ہی کو دین کا ماخذ جانے اور علما سے اسی رائے کو قبول کرے جو اسے قرآن وسنت کے دلائل پر مبنی لگتی ہو۔ اگر کسی شخص کا اختلاف اس کے سامنے آئے تو وہ اس اختلاف کو اپنی استعداد کی حد تک دلائل ہی کی بنا پر رد کرے اور اس اختلاف کی حقیقت کو سمجھنے میں اپنے دینی رہنما سے مدد لے۔ لیکن اگر اسے محسوس ہو کہ اختلاف کرنے والے کی رائے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہے تو اسے اختیار کرے اور اپنے گروہ کے ساتھ وابستگی کو تعصب نہ بننے دے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اپنے گروہ کی رائے کے ساتھ اصرار اگر اللہ اور رسول کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ ہو تو مطلوب ہے۔ تقلید انسانی مجبوری ہے۔ اسے صرف اس وقت برا قرار دینا چاہیے جب یہ حق کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے اور بندہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کر دے۔
(مولانا طالب محسن)