دعا کے مسائل

جواب:یہ سوال جس الجھن پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہوتا ہے ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں یہ اصولی بات معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے تو پھر یہ آزادی بالکل بے معنی ہے۔ پھر جزا یا سزا یا وقوع قیامت یہ سب باتیں اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تدبیر کریں اور تدبیر کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ ہم ان آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی دعائیں کریں جو دوسرے انسانوں اور قدرتی عوامل کی وجہ سے پیش آتی رہتی ہیں اور جن کا کبھی ہمیں شعور نہیں ہوتا اور اگر کبھی شعور ہو بھی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضور کی سکھائی ہوئی ایک دعا کے الفاظ ہیں:

اے اللہ مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا تم نے فیصلہ کیا ہے، کیونکہ تو فیصلے کرتا ہے تیرے اوپر فیصلے نہیں ہوتے ۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ہماری دعا سے اللہ کے فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اللہ تعالی نے ہمیں یہاں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔ آزمایش کے ضروری ہے کہ انسانوں کو خیر وشر کے انتخاب کی حقیقی آزادی حاصل ہو۔ وہ چاہیں تو اچھے اعمال کریں اور چاہیں تو بداعمالیا ں کریں۔ یہ آزادی بالکل محدود ہو جائے گی اگر انسانوں کو دنیوی معاملات میں فیصلے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ شادی، کاروبار، تعلیم، محنت، پرہیز، علاج، ہنر، طرز زندگی ،لباس ،رسم ورواج غرض، زندگی کے بہت سے دائروں میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اصل میں یہ آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ جسے اللہ نے اپنی قدرت کے بل پر جاری وساری کر رکھا ہے۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ شادی میں کئے گئے فیصلے بھی اسی آزادی کے تحت ہیں۔ لیکن یہ آزادی بعض اوقات صرف ارادے تک محدود رہتی ہے اور ایک انسان کو عمل کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی اس مداخلت کے پیچھے کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ ایک انسان کو بہت سی آزمایشیں اس کے ماحول میں موجود انسانوں کے اعمال سے پیش آتی ہیں۔ لہذا مداخلت کرکے اس آزمایش کو مطلوب درجے تک رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر الف ب کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلے اور ب کو قتل نہ ہونے دینا مقصود ہو تو ب کو مداخلت کرکے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ کرنے والا قتل کا مجرم بن جاتا ہے اور آخرت میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک بندے کے مستقبل کو بعض آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مداخلت کی جاتی ہے وغیرہ۔

اس وضاحت کو شادی کی مثال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زور زبردستی کی ہے انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے ایک حق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ الاّ یہ کہ وہ یہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بچوں کا فیصلہ غلط ہے اور اس سے ان کا نقصان ہوگا۔اس کا دوسرا پہلو بھی کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں مداخلت کرکے آئندہ کے لیے کسی آفت سے حفاظت کا بندوبست کیا ہو۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اللہ تعالی سب کی سنتے ہیں۔ نیک آدمی خدا کے پسندیدہ ہیں۔ اس سے توقع پیدا ہوتی ہے کہ ان کی دعائیں بھی اللہ قبول کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے لیکن اللہ تعالی کی طرف سے یہ کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے دعا قبول کرنے کے اصول ہیں وہ ان اصولوں کے مطابق ہونے والی دعا قبول کرتے ہیں۔ کوئی دعا ایسی نہیں ہے جو ان کی درگاہ میں نہیں پہنچتی۔

(مولانا طالب محسن)

ج : یہ سوال جس الجھن پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہوتا ہے ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں یہ اصولی بات معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے تو پھر یہ آزادی بالکل بے معنی ہے۔ پھر جزا یا سزا یا وقوع قیامت یہ سب باتیں اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تدبیر کریں اور تدبیر کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ ہم ان آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی دعائیں کریں جو دوسرے انسانوں اور قدرتی عوامل کی وجہ سے پیش آتی رہتی ہیں اور جن کا کبھی ہمیں شعور نہیں ہوتا اور اگر کبھی شعور ہو بھی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضور کی سکھائی ہوئی ایک دعا کے الفاظ ہیں:

اے اللہ مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا آپ نے فیصلہ کیا ہے، کیونکہ تو فیصلے کرتا ہے تیرے اوپر فیصلے نہیں ہوتے ۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ہماری دعا سے اللہ کے فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اللہ تعالی نے ہمیں یہاں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔ آزمایش کے ضروری ہے کہ انسانوں کو خیر وشر کے انتخاب کی حقیقی آزادی حاصل ہو۔ وہ چاہیں تو اچھے اعمال کریں اور چاہیں تو بداعمالیا ں کریں۔ یہ آزادی بالکل محدود ہو جائے گی اگر انسانوں کو دنیوی معاملات میں فیصلے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ شادی، کاروبار، تعلیم، محنت، پرہیز، علاج، ہنر، طرز زندگی ،لباس ،رسم ورواج غرض زندگی کے بہت سے دائروں میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اصل میں یہ آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ جسے اللہ نے اپنی قدرت کے بل پر جاری وساری کر رکھا ہے۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ شادی میں کئے گئے فیصلے بھی اسی آزادی کے تحت ہیں۔ لیکن یہ آزادی بعض اوقات صرف ارادے تک محدود رہتی ہے اور ایک انسان کو عمل کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی اس مداخلت کے پیچھے کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ایک انسان کو بہت سی آزمایشیں اس کے ماحول میں موجود انسانوں کے اعمال سے پیش آتی ہیں۔ لہذا مداخلت کرکے اس آزمایش کو مطلوب درجے تک رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر الف ،ب کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلے اور ب کو قتل نہ ہونے دینا مقصود ہو تو ب کو مداخلت کرکے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ کرنے والا قتل کا مجرم بن جاتا ہے اور آخرت میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک بندے کے مستقبل کو بعض آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مداخلت کی جاتی ہے وغیرہ ۔اس وضاحت کو شادی کی مثال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زور زبردستی کی ہے انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے ایک حق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ الا یہ کہ وہ یہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بچوں کا فیصلہ غلط ہے اور اس سے ان کا نقصان ہوگا۔اس کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں مداخلت کرکے آئندہ کے لیے کسی آفت سے حفاظت کا بندوبست کیا ہو۔

(مولانا طالب محسن)

ج : ایصال ثواب میں کوئی آدمی اپنے کسی کار خیر کا اجر دوسرے کو منتقل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات اس سے بالکل مختلف ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی مغفرت کی دعا کرے۔ پہلی صورت میں بندہ اصل میں اس اصول کو مانتا ہے کہ میری نیکی کا اجر دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے اور دوسری صورت محض سفارش ہے۔ پہلی صورت کی کوئی دلیل قرآن میں موجود نہیں اور دوسری صورت یعنی دعا کے حق میں متعدد نصوص ہیں۔دعا کا نفع بخش ہونا دعا کی قبولیت کے اصولوں پر قائم ہے۔        

(مولانا طالب محسن)

جواب : اذان کے بعد کی دعا میں دونوں صورتیں درست ہیں۔ میرے علم کی حد تک اس میں مسجد کے اندر یا باہر کا فرق بھی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ دعا ہاتھ اٹھائے بغیر مانگی جاتی ہے۔ اذان کا جواب دینے میں اگر آپ چاہیں تو ہر اذان کا جواب دیں اور اگر ایک اذان کا جواب دیں تو اس میں بھی حرج نہیں۔ اسی طرح چاہیں تو ایک اذان کے بعد دعا مانگیں اور چاہیں تو ہر اذان کے بعد دعا کریں۔ یہ امور نفلی ہیں ۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : بندہ ء مومن اس شعور کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے کہ اس کا وجود اور گرد و پیش کا ماحول اس کے لیے ایک عظیم نعمت ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ بہت سی نعمتوں کے لیے ہمہ وقت محتاج ہے۔ نعمت کا شعور شکر کا تقاضا کرتا ہے اور احتیاج دعا کا۔ وہ اپنی ہر ہر ضرورت کے لیے اور جو کچھ میسر ہو چکا ہے اس میں اضافے کے لیے اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتا ہے تو دعا وجود میں آجاتی ہے۔ اور ایمان ان دونوں ہی چیزوں سے وجود پذ یر ہوتاہے، یعنی شکر اور دعا کے ساتھ ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا اگر صحیح وقت پر صحیح طریقے پر اور اپنی حدود کا احساس کرتے ہوئے کی جائے تو بالعموم فوراً قبول ہو جاتی ہے۔ البتہ اس کا انحصار دعا پر بھی ہے کہ آپ کیا دعا مانگ رہے ہیں؟ مثلاً ہماری ہر مسجد میں لوگ دعا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو دنیا میں غلبہ حاصل ہو جائے، لیکن اس کے لیے جو کچھ انھیں خود کرنا چاہیے اس کو کیے بغیر وہ یہ دعا مانگتے ہیں، اس لیے قبول نہیں ہوتی۔ ہمیں جو کچھ کر کے یہ دعا کرنی چاہیے، وہ ہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی طرح انفرادی زندگی میں آپ دیکھیے کہ ایک آدمی بیماری میں، تکلیف میں، مشکلات میں، اپنی ذمہ داریوں کا کوئی شعور نہیں رکھتا اور دعا کیے جاتا ہے، چنانچہ وہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ جب صحیح وقت پر اور اپنی حدود کا لحاظ کر کے دعا کی جائے گی تو بالعموم قبول ہو جائے گی۔ اگر پھر بھی اس کا قبول ہونا خداتعالیٰ کی مجموعی حکمت کے خلاف ہو تو قبول نہیں ہو گی۔ مثال کے طور پر کسان کو ضرورت ہے کہ بارش ہو، جبکہ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا کچا کوٹھا نہ گر جائے۔ ہم دونوں ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کی دعا قبول ہو گی۔ دنیا کی مجموعی حکمت کے لحاظ سے یا خود دعا کرنے والے فرد کی اپنی بہبود کے لحاظ سے جب کہیں دعا قبول نہیں ہوتی تو پیغمبر اسلام نے بتایا ہے کہ اس کا اجر قیامت میں بندہ ء مومن کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی دعا کو محبوب رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ آپ سے دعا کی درخواست کریں۔ خود بھی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں اور آپ سے بھی درخواست کریں کہ آپ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس طرح کی باتیں لوگ بالعموم اپنے اعتقادات کی بنیاد پر کرتے رہتے ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک کام اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق لازماً ہونا ہی تھا۔ کسی نے اس کے لیے دعا بھی کر دی۔ اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کسی غلط عقیدے میں مبتلا ہو گیا اور بطور آزمایش وہ چیز پوری ہو گئی۔ اس لیے تمام پہلو ممکن ہیں، لیکن پیغمبر کے بعد ہمارے لئے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ فی الواقع یہ کام فلاں کی دعا کے نتیجے میں ہو گیا۔ آپ برے ہوں یا اچھے، سب اللہ تعالیٰ کے محتاج بندے ہیں، وہ اپنے قانون اور حکمت کے مطابق جب چاہتا ہے، جو بات چاہتا ہے، قبول کر لیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسی قبولیت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ جس نے دعا کی ہے، وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ یہ بات تو اصول کے طور پر صحیح ہے کہ نیک لوگوں سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے، لیکن دعا کی ہر قبولیت اچھے پہلو سے نہیں ہوتی، بلکہ بطور آزمایش بھی ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ اگر شیطان کے پاس جانے والوں کو ہمیشہ محروم رکھے تو پھر کہیں کوئی شیطان کے پاس نہ جائے اور اس کے نتیجے میں آزمایش ختم ہو جائے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں نعمت اور امتحان ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر نعمت عنایت کے طور پر ہو۔ وہ سزا یا آزمایش اور کسی سر کش کو ڈھیل دینے کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا کی قبولیت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جگہوں اور مواقع کی اہمیت بیان کی ہے۔ مثلاً جمعہ کا دن، تہجد کا وقت، محلے کی مسجد، حرمین شریفین، یہ وہ جگہیں ہیں جن میں دعا کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی جن جگہوں پر لوگ دعا کی قبولیت کا اعتقاد لے کر جاتے ہیں، ان کے لیے دین و شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا کی قبولیت میں آدمی کا تعلق خاطر اس کی محبت اور اس کی خدا تعالیٰ کے سامنے شکستگی اور آزردگی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماں جس کیفیت میں دعا کرے گی، باپ جس طرح روح کی گہرائیوں سے دست بدعا ہو گا، مریض اپنی بے بسی کے جس احساس کے ساتھ خدا تعالیٰ کو پکارے گا، اس کی توقع آپ دوسرے لوگوں سے نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مظلوم کی پکار سے بچو۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ جس بے بسی اور شکستگی کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے، اس میں توقع کی جاتی ہے کہ خدا کی رحمت زیاد ہ متوجہ ہو جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: ہر چیز جس کی وہ ضرورت محسوس کرتا ہے، وہ اپنے رب ہی سے مانگے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اللہ تعالیٰ کوئی ایسی دعا قبول نہیں کرتے جو ان کی اپنی حکمت کے خلاف ہوتی ہے۔ ہاں، البتہ بندہ بعض اوقات کسی آزمایش کے لیے دست بدعا ہو جاتا ہے۔ وہ کوئی ایسی چیز طلب کر لیتا ہے جو اسے طلب نہیں کرنی چاہیے تھی، تواللہ تعالیٰ بطور آزمایش یا بطور سزا اسے وہ چیز دے دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ درست ہے کہ احادیث میں جن مواقع پر دعا کے زیادہ قبول ہونے کا ذکر آیا ہے، ان میں فرض نماز کے بعد دعا کرنا بھی شامل ہے، لیکن اس کا جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، وہ انفرادی دعا ہی کا تھا۔ اگر کوئی نمازی اپنی ضرورت محسوس کرتا تھا تو وہ دعا کر لیتا تھا۔ امام کے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، سوائے اس کے کہ کسی موقع پر آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی گئی۔ مثلاً لوگوں نے کہا کہ بارش کے لیے دعا کیجیے یا کوئی معاملہ ہو گیا ہے تو اس کے لیے دعا کیجیے۔ یہ جو آج کل سلسلہ چل پڑا ہے کہ ہر فرض نما ز کے بعد امام صاحب دعا کرائیں اورمقتدی آمین کہیں۔ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ء کرام کے زمانے میں نہیں تھا اور اب بھی یہ طریقہ صرف پاکستان اور ہندوستان میں رائج ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اسلام میں کسی مخصوص جگہ کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہاں اگر دعا کی جائے گی تو وہ لازماً قبول ہو جائے گی۔ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ بعض جگہیں اور بعض مواقع دعا کی زیادہ قبولیت کا باعث بنتے ہیں۔ سو فی صد قبولیت کی کوئی بات نہیں۔ اگر سوفی صد دعائیں قبول کر لی جائیں تو ایک دن کے لیے بھی دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔ پرویز مشرف اور نواز شریف اگر ایک ہی وقت میں حرم میں داخل ہوں تو اندازہ کر لیجیے کہ وہ کیا دعا مانگیں گے اور اگر دونوں کی دعا قبول ہو جائے تو کیا نتیجہ ہو گا۔ یہ بات صحیح ہے کہ دعا قبول ہو تی ہے، لیکن وہ بندے کی اپنی بھلائی اور دنیا کی مجموعی حکمت کے لحاظ سے قبول ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بعض اوقات توایسا ہوتا ہے کہ آپ نے الفاظ میں دعا نہیں کی ہوتی، لیکن وہ ہماری شدید تمنا اور خواہش ضرور ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی حکمت کے مطابق پورا کر دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بین الاقوامی سطح پر مسلمان جو دعائیں کر رہے ہیں، ان دعا ؤ ں کے بعض تقاضے ہیں جنھیں پہلے پورا کرنا چاہیے۔ بدر میں نبی کریم نے اس وقت دعا کی جب مسلمانوں نے اپنی طرف سے سب تقاضے پورے کر دیے۔ بے سروسامانی کے باوجود میدان میں اترے، پوری فوج سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان کے پاس جو کچھ تھا انھوں نے میدان میں رکھ دیا۔ اس کے بعد دعا کی گئی اور قبول ہوئی۔ اب مسلمانوں کو علم و ہنر اور دین و اخلاق میں جو تقاضے پورے کرنے چاہییں، اگر انھیں پورے کر کے دعا کی جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا۔ گھر کو تالا لگا کر دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے روزی دے دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے۔ مختصراً یہ کہ عقلی اور اخلاقی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں تو پھر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دعا قبول نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اذان کے بعد کی دعا میں دونوں صورتیں درست ہیں۔ میرے علم کی حد تک اس میں مسجد کے اندر یا باہر کا فرق بھی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ دعا ہاتھ اٹھائے بغیر مانگی جاتی ہے۔اذان کا جواب دینے میں اگر آپ چاہیں تو ہر اذان کا جواب دیں اور اگر ایک اذان کا جواب دیں تو اس میں بھی حرج نہیں۔ اسی طرح چاہیں تو ایک اذان کے بعد دعا مانگیں اور چاہیں تو ہر اذان کے بعد دعا کریں۔ یہ امور تطوع ہیں ۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: دین اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ’۔ ‘‘جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے حقیقت میں اللہ کی اطاعت کی۔’’ آپ کی اطاعت اس لیے واجب ہے کہ آپؐ دین کے سلسلہ میں وحی کے بغیر نہیں بولتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ‘وما ینطق عن الہوی’ ، ‘ان ہو الا وحی یوحیٰ’ ۔ شریعت سازی کا اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ دین میں ہم اپنی طرف سے کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد’ (بخاری) ‘‘جس ے دین میں کوئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے (اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں)۔

بعض حضرات نماز جنازہ کے فوراً بعد چارپائی کے اردگرد کھڑے ہو کر اجتماعی شکل میں دعا کرتے ہیں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں ایک بھی صحیح حدیث نہیں ملتی۔ کچھ لوگ جو علوم اسلامیہ کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں، جنازہ کے بعد دعا کو درج ذیل آیت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں: ‘وقال ربکم ادعونی استجب لکم’ ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھ سے دعا کرو میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ حالانکہ ان لوگوں کا دعویٰ خاص ہے یعنی جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنا، لیکن دلیل عام پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال تو اس طرح ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ زید گھر سے چلا گیا تو اس فقرے کا یہ معنی لینا کہ زید ضرور بالضرور حج بیت اللہ کے لیے گیا ہے ،کس قدر غلط ہے، اس لیے کہ حج کو جانا ایک خاص سفر ہے۔ اور زید کے گھر سے چلے جانے سے اس کے بیت اللہ شریف جانے کی دلیل ثابت نہ ہو گی۔ اگر وہ لوگ اس آیت کے عموم سے جنازہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت کرتے ہیں تو اسی آیت کے عموم کے پیش نظر درج ذیل مقامات پر بھی ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنی چاہیے۔ میت کو غسل دینے سے پہلے، پھر غسل دینے کے بعد، پھر گھر سے میت کی چارپائی رکھنے کے بعد، پھر جنازہ پڑھنے سے پہلے، پھر جنازہ پڑھنے کے بعد، تاکہ اس آیت پر مکمل عمل ہو سکے، لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ تو پتا چلا کہ درج بالا مقامات کو چھوڑ کر صرف نماز جنازہ کے بعد میت کی چارپائی پر گھیرا ڈال کر دعا کرنا سراسر من گھڑت اور دین میں ایک نئی ایجاد ہے۔

پھر ان حضرات کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ منع کی حدیث دکھائیں کہ نبیؐ نے جنازہ کے بعد دعا کرنے سے منع کیا ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس چیز کا وجود ہی نہیں ہے، اس سے منع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ حضرات جنازہ کے بعد اس حدیث سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعاء’ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ)

یہ لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

‘‘جب تم میت پر جنازہ پڑھ چکو تو اس کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرنا۔’’ اولاً اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق بقول ان کے کذاب راوی ہے۔ اہل حدیث جب مقتدی کے حق میں فاتحہ کی حدیث پیش کرتے ہیں تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں محمد بن اسحاق کذاب راوی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں ا س حدیث میں بھی تو یہی راوی ہے تو اب یہ حدیث کیسے صحیح ہو گئی؟ ثانیاً اس حدیث کا ترجمہ بھی غلط کیا جاتا ہے۔ اسی حدیث میں ‘اذا’ ظرفیہ شرطیہ ہے اور نحو کا قاعدہ ہے کہ جب ‘اذا’ شرطیہ ماضی پر آ جائے تو ماضی مستقبل کے معنی میں ہو جاتا ہے۔ (شرح جامی، ص ۲۳۶)تو اس حدیث کا صحیح معنی ہو گا ، جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھو تومیت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو۔ چنانچہ احناف کے معتمد علیہ عالم مولانا عبد الحق دہلویؒ کا فارسی ترجمہ بالکل ہمارے ترجمہ کے عین مطابق ہے۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الجنائز مکتبہ نورانی پشاور)یہ حدیث بالکل اس حدیث کی طرح ہے جس میں نبیؐ نے فرمایا کہ ‘اذا صلیتم فاقیموا صفوفکم’ (مسلم شریف) ا س حدیث کا ترجمہ اگر اسی طرح کیا جائے جس طرح ہمارے بھائی دعا والی حدیث کا کرتے ہیں تو ترجمہ یوں ہو گا: جب تم نماز پڑھ چکو تو اپنی صفیں درست کرو۔ قارئین خود فیصلہ کریں۔ کیا یہ ترجمہ درست ہے؟ جب کہ قاعدہ کے مطابق صحیح ترجمہ یوں ہو گا: جب تم نمار پڑھنے لگو تو اپنی صفیں درست کرو۔ اسی طرح قرآن مجید میں ‘ فاذا قرأت القرآن فاستعذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم’ (اے پیغمبر جب آپ قرآن مجید کی تلاوت شروع کرنے لگیں تو اعوذ باللہ پڑھ لیا کریں۔) اگر ہمارے بھائیوں والا ترجمہ کیا جائے تو یوں ہو گا:‘‘جب تم قرآن پڑھ چکو تو اعوذ باللہ پڑھو’’۔ یہ ترجمہ عقل و نقل کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عربی گرامر کے بھی خلاف ہے۔یہ لوگ امام سرخسی کی کتاب مبسوط کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ جنازہ کے بعد پہنچے تو کہا اگر تم نے مجھ سے پہلے نماز پڑھ لی ہے تو دعا میں مجھ سے آگے نہ بڑھو۔لیکن یہ روایت کسی معتبر حدیث کی کتاب میں نہیں ہے۔ اگر یہ روایت کسی معتبر کتاب میں ہوتی تواس کی سند ضرور ہوتی۔ بے سند چیز کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ یہ حضرات بیہقی کے حوالے سے ایک من گھڑت واقعہ سیدنا حضرت علی ؓ کے ذمے لگاتے ہیں کہ انھوں نے جنازہ کے بعد دعا کی۔ یہ سراسر جھوٹ ہے اور حقائق پر پردہ ڈالا گیا ہے۔ اصل واقعہ اس طرح ہے کہ سیدناعلیؓ نے ایک میت کی نماز جنازہ پڑھائی پھر جنازہ کے بعد کچھ لوگ آئے تو انھوں نے دوبارہ جنازہ پڑھا۔ اب دوبارہ جنازہ کی امامت حضرت قریظہ بن کعبؓ نے کی تو ان کے ساتھ شامل ہو کر حضرت علیؓ نے دوبارہ جنازہ پڑھا۔ چنانچہ خود امام بیہقی اس واقعہ کو اس باب کے تحت لائے ہیں کہ میت کی دوبارہ نمازہ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ (السنن الکبریٰ، ح ۴، ص ۴۵)اس واقعہ میں تو دعا کا ذکر تک نہیں۔ پھر حضرت علی ؓ کے اس واقعہ سے ان کے اس نظریے کا بھی رد ہوتا ہے کہ دوبارہ نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔

نمازہ جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنا فقہائے احناف کے نزدیک بھی جائز نہیں

۱۔ علامہ سراج الدین حنفی فرماتے ہیں: ‘اذا فرغ من الصلوٰۃ لا یقوم بالدعاء’۔ (فتاوی سراجیہ، ص ۲۳) جب نمازہ جنازہ سے فارغ ہو جائیں تو دعا کے واسطے نہ ٹھہریں۔

۲۔ حافظ الدین محمد بن شہاب حنفی فرماتے ہیں: ‘لا یقوم بالدعاء بعد صلوٰۃ الجنازۃ لانہ دعا مرۃ’ (فتاوی ہندیہ، ج ۱ ، ص ۴۸۳) جنازہ کے فوراً بعد دعا نہ کریں کیونکہ وہ ایک بار دعا کر چکا ہے۔

۳۔ علامہ ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں: ‘ولا یدعو بعد التسلیم’۔ (البحر الرائق ج ۲، ص ۱۸۳) نمازہ جنازہ سے سلام پھیرنے کے بعد دعا نہ کرے۔

۴۔ ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں: ‘ولا یدعو للمیت بعد صلوٰۃ الجنازۃ لانہ یشبہ الزیادۃ فی الصلوٰۃ الجنازۃ’۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، ج ۴، ص ۶۴) نماز کے بعد میت کے لیے دعا نہ کرے کیونکہ یہ نماز جنازہ میں زیادتی کے مشابہ ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ ‘‘ضیائے حدیث’’ لاہور، اپریل 2010ء)

(مولانا محمد اسماعیل بلوچ)

ج: اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا کی قبولیت کا ایک ضابطہ ہے۔ جب آپ دعا کے قبول ہونے کی شرائط پوری کر دیں گے ، تب دعا قبول ہو گی۔ مثال کے طور پر آپ گھر میں بیٹھ جائیں، دروازہ بند کر لیں اور کہیں کہ پروردگار رزق عطا فرما، رزق عطا فرما ۔ یہ وہ بات ہے جس پر سیدنا مسیح علیہ السلام نے شیطان کو ڈانٹا تھا ۔ شیطان نے کہا کہ مسیح تمہیں اللہ تعالیٰ پر بڑا اعتماد ہے، ذرا یہ پہاڑ کے اوپر چڑھ جاؤ اور اپنے آپ کو گرا دو پھر دیکھو تمہارا خدا تم کو بچا لیتا ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح نے کہا کہ دور ہو مردود۔ مجھے خدا نے آزمانا ہے میرا کام خدا کو آزمانا نہیں۔ اس لیے خدا کو آزمانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کیجیے اور اس کے بعد اللہ سے دعا کیجیے پھر وہ اس کو قبول فرماتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی حرج کی بات نہیں۔اس کی تعلیم خود قرآن نے دی ہے کہ جب لوگ اپنی جانوں پر ظلم ڈھالیں تو یہ حضور کے پاس آکر کہیں کہ آپﷺ بھی ہمارے لیے دعا فرمائیں ۔ خود بھی دعا کریں اور دوسروں سے بھی کہیں۔ یہ اصل میں بندگی کا اظہار ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ دعا کو آپ جس بات کے ساتھ Confuse کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی شاید کسی Dictated یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت چل رہا ہے اور اُس طے شدہ پروگرام میں ظاہر ہے،(آپ کے خیال میں) یہ تو لکھا ہوا نہیں ہو گا کہ فلاں آدمی نے خدا سے ایک دعا بھی کرنی ہے۔ چنانچہ جب وہ آدمی دعا کرتا ہے، تو خدا کے لیے یہ مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ اگر وہ اُس کی دعا کی طرف دھیان دے ، تو وہ Dictation یا طے شدہ پروگرام مجروح ہوتا ہے اور اگر دھیان نہ دے، تو پھر بندے کا خدا سے دعا کرنا ایک بے کار عمل ٹھہرتا ہے۔ نہیں،میرے بھائی، بات ایسے نہیں ہے۔خدا اصلاً، پہلے سے کسی طے شدہ پروگرام کے تحت نہیں چل رہا۔ بلکہ بات کچھ اِس طرح سے ہے کہ اُس نے کچھ اصولی فیصلے کیے ہوئے ہیں اور کچھ قوانین بنائے ہوئے ہیں۔وہ اُن فیصلوں کی اور اُن قوانین کی پابندی ضرور کرتا ہے مگر اس کے لیے لازم نہیں۔مزید یہ ہے کہ اُس نے ہمارے لیے اپنی مرضی سے امتحان و آزمایش کی نوعیت کی بعض چیزیں طے کر رکھی ہیں۔ اور وہ اُن کے حوالے سے ہمیں آزما رہا ہے۔ چنانچہ اُس نے یہ طے نہیں کیا کہ نیکی اور بدی میں سے کسی ایک کو ہم اپنی مرضی سے اختیار کر ہی نہ سکیں۔ بلکہ اِس کے برعکس اُس نے یہ طے کیا ہے کہ ہم لازما ً نیکی اور بدی کو اپنی مرضی ہی سے اختیار کریں۔ لہذا، ہم اپنی مرضی سے نیکی کی طرف بڑھتے اور اپنی مرضی ہی سے بُرائی کو اختیار کرتے ہیں۔اِس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اللہ اپنے کمالِ علم کی بنا پر اور اپنے عالم ُالغیب ہونے کی بنا پر پہلے سے یہ جانتا ہے کہ مستقبل میں کس نے کیا کرنا ہے اور کس نے کیا نہیں کرنا۔دعا یہ ہے کہ ہم کسی معاملے میں خدا سے مدد لیتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اللہ ہماری دعا کو بعض اوقات قبول کر لیتا ہے اور بعض اوقات نہیں۔جب وہ ہماری دعا کو قبول کرتا ہے ، تو اِس سے خدا کے علم کامل کے حوالے سے کوئی نیا واقعہ رو نما نہیں ہوتا، بلکہ یہ محض اُس کے علمِ کامل ہی کی تصدیق ہوتی ہے، جس میں یہ موجود تھا کہ فلاں آدمی اپنے اختیار و ارادہ سے خدا سے دعا کرے گا اور اُس کے دعا کرنے کے نتیجے میں اللہ اُسے فلاں شے عطا کر دے گا۔مختصراََ یہ ہے کہ اللہ کا علمِ کامل اور چیز ہے اور اللہ کے طے شدہ اصول و قوانین اور امتحان کی غرض سے طے شدہ آزمایشیں اور چیز ہیں۔علمِ کامل پہلے ہی کامل ہے اس میں اضافہ محال ہے اور امتحان کی غرض سے پہلے سے طے شدہ آزمائشوں ،نعمتوں اور مصیبتوں میں کمی یا اضافہ ممکن ہے اور یہ ہوتا رہتا ہے۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو بہت سی دعائیں دراصل خدا سے آزمایش کی تبدیلی کی دعائیں ہوتی ہیں، آدمی اِس طرح کے الفاظ تو نہیں بولتا لیکن بات نتیجہ کے اعتبار سے ہوتی یہی ہے کہ ہمیں آفت کے ذریعے سے آزمانے کے بجائے نعمت کے ذریعہ سے آزمایا جائے۔ چنانچہ اللہ کی حکمت میں اگر آزمایش کی یہ تبدیلی موزوں ہوتی ہے تو اللہ دعا قبول کر لیتے ہیں، ورنہ نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ضروری نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے لہذا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہر نماز کے بعد ہاتھ اـٹھا کر دعا کرنا ضروری ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ہر نماز کے بعد لازماً ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا اور اسے نماز کے باقی ارکان کی طرح ضروری سمجھنا ، یہ بات درست نہیں ہاں البتہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بجائے خود درست ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید میں جتنی دعائیں بیان ہوئی ہیں وہ اس طرح کے کسی بھی اسلوب سے بالکل خالی ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں وسیلہ یا واسطہ جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔ اگر یہ دعا کرنے کا کوئی بہتر طریقہ ہوتا تو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں اس کی کئی مثالیں مل جاتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا کا یہ طریقہ اللہ تعالی کے بارے میـں ناقص تصور کا مظہر ہے۔ اللہ تعالی کی ذات ہر اعتبار سے غنی ہے۔ وہ کسی بھی ہستی کے ساتھ اس طرح متعلق نہیں ہے کہ وہ اس کی کمزوری ہو۔ بلکہ ہر ذات اس کے سامنے محتاج محض ہے۔دعا کرنے میں ہمیں وہ طریقے اختیار کرنے چاہیں جو اللہ کے پیغمبروں نے اختیار کیے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آپ کا یہ مشاہدہ تو درست ہے کہ یہ کائنات کچھ متعین اصولوں پر چل رہی ہے۔ لیکن یہ نتیجہ درست نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس میں مداخلت نہیں کرتے یا وہ ان قوانین کے پابند ہیں۔ قرآن مجیدمیں مذکور اللہ تعالی کی دو صفات حی قیوم اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے آئی ہیں۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو جس آزمایش میں ڈالا ہے اس کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے کے لیے بھی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی حسب ضرورت مداخلت کرتے رہیں۔ قوموں کے بارے میں اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ وہ دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو دنیا کی عبادت گاہیں اجڑ کر رہ جائیں۔ اس طرح کے متعدد امور سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس دنیا کو براہ راست چلا رہے ہیں اور اس میں جس وقت اور جہاں چاہتے ہیں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ دعائیں سنتے ہیں اور انھیں قبول کرتے ہیں۔ تقدیر پر ایمان کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالی ہی کو کار فرما اور کار ساز مانیں اور اپنی تدبیر و سعی کو اصل قرار نہ دیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج: ہمارے ہاں جیسے لوگ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں ،یہ طریقہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں نہیں تھا ۔ لوگ انفرادی دعا کر لیتے تھے ۔ جس نے جاناہوتا تھا چلاجاتاتھا۔ اصل میں نماز کے اندر دعا کو باقاعدہ رکھا گیا ہے ۔یعنی قعدہ اصل میں دعا کی جگہ ہے ۔ نماز کے بعد جیسے ہمارے ہاں لوگ ایک معمول کے طور پردعا کرتے ہیں یا دعا کراتے ہیں یہ طریقہ حضور ﷺکے زمانے میں نہیں تھا۔ البتہ اگر متقدیوں میں سے کسی نے کہہ دیا تو آپﷺ دعا کر دیتے تھے ۔اور ایسے ہی اگر کوئی غیرمعمولی صورتحال ہوتی جس میں حضورﷺ پسند فرماتے کہ سب کو شریک کیا جائے تو سب کو شریک کر لیتے تھے لیکن عام طریقہ یہی تھا کہ نماز پڑھیے ، اپنی دعا کیجیے اور گھر جائیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ سوال ہمارے قومی مزاج کی صحیح عکاسی ہے۔ ہمارے لیے دین سیکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، قرآن سیکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ کسی معاملے میں اگر تسلی نہیں ہوئی تو ہم ساری چیزوں سے محروم ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے آدمی کو اپنے اس رویے کی اصلاح کرنی چاہیے اور اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ وہ سب چیزوں کو شیطان اور ملائکہ کے خانے میں نہ ڈالے ، اختلافات کے باوجود خیر سے فائدہ اٹھائے اور اگر کسی چیز پر اطمینان نہ ہو تو اس پر گفتگو جاری رکھے ۔ فرقہ بازی اسی رویے سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے اس رویے کی اصلاح ہونی چاہیے ۔یہی رویہ بحیثیت امت ہماری بدقسمتی بن گیا ہے ۔

            نماز کے بعد اجتماعی دعا نبیﷺ سے ثابت ہی نہیں تو مانگنے کا کیا سوال ۔ یہ صرف ہندستان میں ایک روایت بن گئی ہے ۔ آج بھی ہندستان کے باہر عالم اسلام کے علما بالعموم اس طرح دعا نہیں مانگتے ۔ حضورﷺ نے کبھی محسوس کیا کہ اجتماعی دعا کی ضرورت ہے ، یا لوگوں میں سے کسی نے درخواست کر دی کہ بارش یا کسی اور کام لیے دعا کردیں ، تب آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ انفرادی دعا کیجیے ، اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اجتماعی دعا نبیﷺ کی سرے سے سنت ہے ہی نہیں ۔ یہ ہماری ہندستانی روایت ہے ، اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ دین کے معاملے میں ہمارے علم کا حال یہ ہو گیا ہوا ہے کہ جو چیزیں روایت پکڑ جاتی ہیں ان کے بارے میں کوئی جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ اصل دین کیا ہے

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعہ کی نماز میں دعا کا اصل وقت دوسرا خطبہ ہے ، ہمارے ہاں نماز کے بعد دعا کا جو رواج ہو گیا ہے یہ حضورﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہماری تمام دعائیں سنی جاتی ہیں انھیں قبول کرنے کا معاملہ سرتاسر اللہ تعالی کی حکمت پر منحصر ہے۔ جب اللہ چاہتے ہیں دعا پوری کر دیتے ہیں۔ کبھی مؤخر کردیتے ہیں اور کبھی آخرت تک ملتوی کر دیتے ہیں۔ آپ نے جو مثالیں دی ہیں۔ ان کے معاملے میں غور ایک دوسرے زاویے سے ہونا چاہیے۔ ہم طویل عرصے سے ایک خاص حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ حکمت عملی اب پوری طرح واضح ہے کہ ناکام حکمت عملی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ناکامی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہے یا اس کا سبب کچھ اور ہے۔ ہمارے نزدیک یہ حکمت عملی غلط ہے۔ اس وقت اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اس حکمت عملی کو ترک کریں اور سارے معاملے کا جائزہ لے کر کوئی نئی حکمت عملی وضع کریں۔

(مولانا طالب محسن)

ج: قرآن و سنت میں اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہم قبرستان جاتے ہیں اپنے جذبات کی تسکین کے لیے ، عبرت حاصل کرنے کے لیے اور یہ بات یاد رکھنے کے لیے کہ ہم کو بھی ایک دن یہیں آناہے ۔ مردے سنتے ہیں یا نہیں سنتے ، محسوس کرتے ہیں یا نہیں کرتے ، اس کے جاننے کا کوئی مستند ذر یعہ ہمارے پاس نہیں ہے اس طرح کی کوئی بات نہ قرآن میں کہی گئی ہے اور نہ ہی کسی مستند حدیث میں بیان ہوئی ہے ۔البتہ جب ہم جاتے ہیں تو یہ ہمار ے تعلق کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبی کریم ﷺ سے منسوب دعائیں بلاشبہ بہت پاکیزہ دعائیں ہیں ۔لیکن یہ واضح رہے کہ ان کی حیثیت بھی اللہ کے حضور میں درخواست ہی کی ہے ۔ البتہ یہ دعائیں جن روایات میں نقل ہوئی ہیں ان میں چونکہ زیادہ تر آپ ہی کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں اس لیے اس پہلو سے یہ دعائیں بے پناہ اہمیت کی حامل ہیں کہ ان میں حضور کی زبان سے نکلے الفاظ بعینہ محفوظ ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں چونکہ اللہ سے مانگنے کے صحیح طریقے کی رہنمائی اور توحید کا صحیح شعور ہے ، اس لیے سیکھنے سکھانے میں انہیں ترجیح حاصل ہے۔اور اسی حوالے سے یہ بچوں کو یاد کرانی چاہیں۔البتہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے یہ جلد قبول ہو جائیں گی تو ایسا نہیں ہے بلکہ دعاؤں کی قبولیت کا اللہ کے ہاں ایک ضابطہ ہے ، اس کی حکمت کے تحت ہی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)


جواب:نمازِ وتر میں دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے، اور قاعدہ یہ ہے کہ واجب کے رہ جانے پر سجدہ سہو ادا کرنا لازم ہے، سجدہ سہو سے نماز ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگرکوئی شخص وتر میں سورہ فاتحہ اور تلاوت کے بعد دعائے قنوت پڑھنا بھول گیا اور رکوع میں چلاگیا تو قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر سجدہ سہو کر لے، وتر کی ادائیگی درست ہوگی۔ دعائے قنوت بھول جانے کی صورت میں سجدہ سہو کرنے کے بعد وتر لوٹانے کی ضرروت نہیں ہے۔ رکوع سے قیام کی طرف لوٹنے کی بھی حاجت نہیں۔ سجدہ سہو سے وتر کی ادائیگی ہو جائے گی۔
 

(منہاج القرآن)

خدا کے حضور دعا میں ہاتھ اٹھانا
سوال: مقامی حلقوں میں میرے خلاف بعد نماز ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔ یہاں بہت زیادہ آبادی ایک ایسے مسلک کی پیروکار ہے جن کا امتیازی شعار ہی یہ ہے کہ دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔ یہ حضرات میرے خلاف اپنے اعتراض میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَخُفْیَۃ کے ارشاد کا تقاضا یہی ہے کہ دعا میں حد درجہ اخفا برتا جائے۔ بخلاف اس کے ہاتھ اٹھانے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ بدیں وجہ دعا میں ہاتھ اٹھانا قرآن کے منشا کے خلاف ہے۔ نیز احادیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے کبھی اس کا التزام کیا ہو۔ اب عوام کو دلائل سے تو کچھ مطلب نہیں ہوتا وہ لکیر کی فقیری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چنانچہ مجھے صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ میں ان کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس حکم کے نافذ کرنے والوں میں بعض حضرات خوب اچھے تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ خیر یہ جاہلیت کے کرشمے ہیں۔ مجھے صرف مذکورۃ الصدر آیت کی روشنی میں اصل مسئلے کو سمجھائے۔‘‘؟


جواب: ان حضرات سے دریافت کیجیے کہ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَخُفْیَۃ(اپنے رب کو پکارو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے) کا اگر وہی تقاضا ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہیں تو یہ نماز کے لیے بلند آواز سے اذان، پھر اعلانیہ مسجدوں میں لوگوں کا مجتمع ہونا، پھر جماعت سے نماز پڑھنا، پھر نماز میں جہری قرات کرنا، یہ سب کچھ بھی تو پھر اس آیت کے خلاف قرار پائے گا۔ نماز اصل میں تو ایک دعا ہی ہے۔ اگر دعا کے لیے اخفا ایسا ہی لازمی ہے اظہار کی کوئی شکل اس میں ہونی ہی نہ چاہیے، تو ظاہر ہے کہ نماز باجماعت کی پوری صورت ہی اس کے خلاف ہے۔
پھر جو کچھ یہ حضرات فرماتے ہیں وہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔ حدیث میں ہم کو نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا مانگی جائے تو ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے اور دعا سے فارغ ہو کر چہرے پر ہاتھ مل لیے جائیں۔ابو داؤد، ترمذی اور بیہقی میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں۔ایک حدیث میں حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ:
اِنَّ رَبَّکُمْ حَییٌ کَرِیْمٌ یَسْتَحْی مِنْ عَبْدِہٖ اِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ اَنْ یَرُدَّھُمَا صِفْراً۔
تمہارا رب بڑا باحیا اور کریم ہے۔ بندہ جب اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ اس کو خالی ہاتھ واپس کردے۔
دوسری روایت میں حضرت عمرؓـ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب دعا مانگتے تھے تو ہاتھ اٹھا کر مانگتے تھے اور اس کے بعد اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں حضرت علی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا اللہ کے آگے عاجزی اور مسکنت کے اظہار کے لیے ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بنا پر بعض علماء نے اس طریقے کو بدعت ٹھہرایا ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیاجائے، اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے اور اگر کبھی کبھی قصداً اس کو ترک بھی کر دیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ خدا سے دعا مانگنا بجائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)