ج : ایصال ثواب میں کوئی آدمی اپنے کسی کار خیر کا اجر دوسرے کو منتقل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات اس سے بالکل مختلف ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی مغفرت کی دعا کرے۔ پہلی صورت میں بندہ اصل میں اس اصول کو مانتا ہے کہ میری نیکی کا اجر دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے اور دوسری صورت محض سفارش ہے۔ پہلی صورت کی کوئی دلیل قرآن میں موجود نہیں اور دوسری صورت یعنی دعا کے حق میں متعدد نصوص ہیں۔دعا کا نفع بخش ہونا دعا کی قبولیت کے اصولوں پر قائم ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ ایصال ثواب کرنا جائز ہے اور پہنچتا ہے۔اگر ہو تو وہ حدیث مجھے بھی بتائیے ۔حضور کی حدیث تو یہ ہے کہ جب کوئی خدا کا بندہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتاہے۔صرف تین چیزیں جاتی ہیں۔ اور وہ تین چیزیں یہ ہیں کہ اس نے اپنے پیچھے کوئی علم یا عمل کی روایت چھوڑی جس سے لوگ نفع پار ہے ہوں اس کا اجر اس کو ملتا رہے گا ۔ عمل کی کوئی روایت چھوڑی اسکو صدقہ جاریہ کہتے ہیں تو اس کا اجر اس کو ملتا رہے گا ۔ اس نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی وہ اسکے لیے دعائیں کرے گی تو اولاد کاعمل نافع ہو گا اس کے لیے ۔اور اولاد کے عمل کا نافع ہونا خود قرآن میں بھی بیان ہوا ہے ۔اولاد نماز پڑھتی ہے تو وہ نافع ہے ، روزہ رکھتی ہے وہ بھی نافع ہے ، اولاد حج کرتی ہے وہ بھی نافع ہے ۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کہ قرآن پڑھ پڑھ کے مردوں کی بخشش کروائی جا سکتی ہے ،یہ بات نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے نہ حدیث میں ۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ امام شافعی کے سامنے جب اس طرح کا واقعہ ہواتو انہوں نے اس پر نہایت سخت تبصرہ کیا اور جب کسی نے سمجھانے کی کوشش کی کہ آخر نیکی ہی کا کام ہے تو انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نیکی کاایسا کام اللہ کے رسول اور صحابہ چھوڑ کے نہیں گئے کہ جو انہوں نے تو نہ کیا ہو اور تم کرنے جا رہے ہو۔ دین میں وہی کام کرنے چاہیےں جو کام پیغمبر اوران کے صحابہ نے کیے ہیں ۔ان حضرات کا عمل ایصال ثواب کے تصور سے خالی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)