ج۔ 1- وقت اور کیفیت کی شرعی تحدید کے اعتقاد کے بغیر یہ عمل کیا جائے اور شرکت نہ کرنے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے تو یہ عمل جائز ہے۔
2- فرائض کے بعد دعا بھی اگر نماز کا تکمیلی حصہ نہ سمجھتے ہوئے اجتماعی شکل میں کی جائے اور اس دعا میں شرکت نہ کرنے والوں پر کوئی لعنت، ملامت بھی نہ ہو تو یہ دعا جائز ہے۔
(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)
ج: ہمارے ہاں جیسے لوگ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں ،یہ طریقہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں نہیں تھا ۔ لوگ انفرادی دعا کر لیتے تھے ۔ جس نے جاناہوتا تھا چلاجاتاتھا۔ اصل میں نماز کے اندر دعا کو باقاعدہ رکھا گیا ہے ۔یعنی قعدہ اصل میں دعا کی جگہ ہے ۔ نماز کے بعد جیسے ہمارے ہاں لوگ ایک معمول کے طور پردعا کرتے ہیں یا دعا کراتے ہیں یہ طریقہ حضور ﷺکے زمانے میں نہیں تھا۔ البتہ اگر متقدیوں میں سے کسی نے کہہ دیا تو آپﷺ دعا کر دیتے تھے ۔اور ایسے ہی اگر کوئی غیرمعمولی صورتحال ہوتی جس میں حضورﷺ پسند فرماتے کہ سب کو شریک کیا جائے تو سب کو شریک کر لیتے تھے لیکن عام طریقہ یہی تھا کہ نماز پڑھیے ، اپنی دعا کیجیے اور گھر جائیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: ان حضرات سے دریافت کیجیے کہ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَخُفْیَۃ(اپنے رب کو پکارو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے) کا اگر وہی تقاضا ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہیں تو یہ نماز کے لیے بلند آواز سے اذان، پھر اعلانیہ مسجدوں میں لوگوں کا مجتمع ہونا، پھر جماعت سے نماز پڑھنا، پھر نماز میں جہری قرات کرنا، یہ سب کچھ بھی تو پھر اس آیت کے خلاف قرار پائے گا۔ نماز اصل میں تو ایک دعا ہی ہے۔ اگر دعا کے لیے اخفا ایسا ہی لازمی ہے اظہار کی کوئی شکل اس میں ہونی ہی نہ چاہیے، تو ظاہر ہے کہ نماز باجماعت کی پوری صورت ہی اس کے خلاف ہے۔
پھر جو کچھ یہ حضرات فرماتے ہیں وہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔ حدیث میں ہم کو نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا مانگی جائے تو ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے اور دعا سے فارغ ہو کر چہرے پر ہاتھ مل لیے جائیں۔ابو داؤد، ترمذی اور بیہقی میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں۔ایک حدیث میں حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ:
اِنَّ رَبَّکُمْ حَییٌ کَرِیْمٌ یَسْتَحْی مِنْ عَبْدِہٖ اِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ اَنْ یَرُدَّھُمَا صِفْراً۔
تمہارا رب بڑا باحیا اور کریم ہے۔ بندہ جب اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ اس کو خالی ہاتھ واپس کردے۔
دوسری روایت میں حضرت عمرؓـ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب دعا مانگتے تھے تو ہاتھ اٹھا کر مانگتے تھے اور اس کے بعد اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں حضرت علی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا اللہ کے آگے عاجزی اور مسکنت کے اظہار کے لیے ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بنا پر بعض علماء نے اس طریقے کو بدعت ٹھہرایا ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیاجائے، اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے اور اگر کبھی کبھی قصداً اس کو ترک بھی کر دیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ خدا سے دعا مانگنا بجائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔