جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے ایک رواج کو نا پسند فرمایا تھا۔ کچھ لوگ طمطراق اور طنطنہ ظاہر کرنے کے لیے عربوں میں رائج ازار کے لباس تہبند کو اتنا نیچے باندھتے تھے کہ وہ چلتے وقت زمین پر گھسٹتا رہے۔ ظاہر ہے، یہ گھمنڈ ہے جسے ہمارے دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ہماری امت میں دو نقطہ نظر رائج ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق علت کو اہمیت دی جائے گی اور لباس کی ہر وہ ہیئت ناپسندیدہ قرار دی جائے گی جس کا محرک تکبر ہو۔ چنانچہ ٹخنوں کا ننگا ہونایا ڈھکا ہونا اس معاملے میں غیر اہم ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کے معاملے میں ٹخنوں کو ننگا رکھنے کا حکم دیا تھا۔ لہذا کوئی بھی لباس ہو ٹخنے ہر حال میں ننگے رکھے جائیں گے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل اہمیت علت کی ہے۔ اگر کسی لباس میں نیچے رکھنے سے تکبر کی علت نہیں ہے تو ٹخنے ننگے رکھنا ضروری نہیں رہتا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے ایک رواج کو نا پسند فرمایا تھا۔ کچھ لوگ طمطراق اور طنطنہ ظاہر کرنے کے لیے عربوں میں رائج لباس یعنی تہبند کو اتنا نیچے باندھتے تھے کہ وہ چلتے وقت زمین پر گھسٹتا رہے۔ ظاہر ہے، یہ گھمنڈ ہے جسے ہمارے دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ہماری امت میں دو نقطہ نظر رائج ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق علت کو اہمیت دی جائے گی اور لباس کی ہر وہ ہیئت ناپسندیدہ قرار دی جائے گی جس کا محرک تکبر ہو۔ چنانچہ ٹخنوں کا ننگا ہونایا ڈھکا ہونا اس معاملے میں غیر اہم ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کے معاملے میں ٹخنوں کو ننگا رکھنے کا حکم دیا تھا۔ لہذا کوئی بھی لباس ہو ٹخنے ہر حال میں ننگے رکھے جائیں گے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل اہمیت علت کی ہے۔ اگر کسی لباس میں نیچے رکھنے سے تکبر کی علت نہیں ہے تو ٹخنے ننگے رکھنا ضروری نہیں رہتا۔
(مولانا طالب محسن)