جواب :تعویز اس دعوے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کوئی دینی دلیل موجود نہیں ہے۔ یعنی قرآن وحدیث میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں کوئی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں وہ اپنے مختلف تجربات بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان تجربات کا کوئی غیر جانبدارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں یہ طے ہو سکے کہ اس دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس فن کے لوگ موجود رہے ہیں لیکن نہ قدیم نہ جدید کسی معاشرے نے اس فن کو ایک قابل اعتماد تدبیر قرار نہیں دیا۔ مزید دیکھیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں دو ہی طریقے سکھائے ہیں۔ ایک یہ کہ عملی تدبیر کی جائے اور اللہ تعالی سے اس تدبیر کے کامیاب ہونے کی دعا کی جائے۔ کبھی کسی تعویز یا وظیفے وغیرہ کا طریقہ نہ سکھایا گیا ہے اور نہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کا معاشرہ ہمیں اس طرح کی چیزوں سے خالی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرکے اپنے جسم پر پھونکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے تعویز کا تصور نہیں نکالا جا سکتا اس لیے کہ تعویز کلمات کی تاثیر کے تصور پر مبنی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ سحر ایک فن ہے جو سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ اس کا دائرہ عمل کیا ہے ؟ اس ضمن میں قرآن وحدیث سے کوئی بات طے کرنا موزوں نہیں ۔ اس لیے کہ ان میں اس کا تذکرہ کچھ واقعات کے حوالے سے آیا ہے ۔ براہ راست اس فن کو موضوع نہیں بنایا گیا۔یہ سرتاسر تجربے پر موقوف ہے۔اس فن کے لوگ اسے باقاعدہ علم کی شکل نہیں دے سکے لہذا اس کے نتائج کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ البتہ ہمیں قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس فن کی ایک صورت غالباً جسے کالا علم کہا جاتا ہے کفر ہے۔ اور دوسری صورت بھی ایک فتنہ ہے۔ لہذا ان سے گریز ہی بہتر ہے۔ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں پڑھ کر پھونکنے میں حرج نہیں اور اگر ضرورت ہو تو لکھ کر تعویز بھی بنایا جا سکتا ہے۔لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ عمل کرنے والا اپنے لیے خود کرے ۔پڑھ کر اپنے اوپر پھونکنے کاعمل حضور سے روایات میں بیان ہوا ہے لیکن تعویزکرنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:تعویز اس دعوے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کوئی دینی دلیل موجود نہیں ہے۔ یعنی قرآن وحدیث میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں کوئی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں وہ اپنے مختلف تجربات بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان تجربات کا کوئی غیر جانبدارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں یہ طے ہو سکے کہ اس دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس فن کے لوگ موجود رہے ہیں لیکن نہ قدیم نہ جدید کسی معاشرے نے اس فن کو ایک قابل اعتماد تدبیر قرار نہیں دیا۔ مزید دیکھیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں دو ہی طریقے سکھائے ہیں۔ ایک یہ کہ عملی تدبیر کی جائے اور اللہ تعالی سے اس تدبیر کے کامیاب ہونے کی دعا کی جائے۔ کبھی کسی تعویز یا وظیفے وغیرہ کا طریقہ نہ سکھایا گیا ہے اور نہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کا معاشرہ ہمیں اس طرح کی چیزوں سے خالی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرکے اپنے جسم پر پھونکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے تعویز کا تصور نہیں نکالا جا سکتا اس لیے کہ تعویز کلمات کی تاثیر کے تصور پر مبنی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: جب تعویذوں کے پیچھے آدمی بھاگ کھڑا ہوتا ہے تو پھر اللہ سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ اس طرح کے توہمات میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اللہ سے دعا کرنی چاہیے ، یہی اصل چیز ہے اور علاج معالجہ کرنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج : تعویز گنڈے کو نبیﷺ نے مکروہ جانا ہے۔ ابو داؤد کی کتاب الخاتم میں ایک مفصل حدیث بیان ہوئی ہے ، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی ﷺ دس فلاں فلاں چیزوں کو مکروہ جانتے تھے ،ان باتوں کی تفصیل میں سے ایک تعویز باندھنا بھی ہے۔
دین سے اس کے بارے میں ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے۔ لہذا ،اس سے بچنا چاہیے۔اس کے بعد یہ سوال اصلاً بے کار ہے کہ اس کے کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں یا نہیں۔ اثرات مرتب ہوں ،تو بھی اس سے بچنا ہے اور نہ ہوں ،تو بھی اس سے بچنا ہے
(محمد رفیع مفتی)