جواب:عام طور پر ایک روایت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر غلطی ہو تو ایک اجر ہے اور اگر درست ہو تو دہرا اجر ہے۔ اس روایت کے بارے میں کچھ قیل وقال ہے۔ لیکن قرآن میں اجر کے مرتب ہونے کے جو اصول بیان ہوئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات ٹھیک لگتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس غلطی پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے جس میں آدمی کا اپنا ارادہ اور نیت شامل نہیں ہے۔مجتہد یا قاضی چونکہ صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ غلطی کے باوجود اسے اجر ملنا سمجھ میں آتا ہے۔ درست فیصلے یا نتیجے پر دہرا اجر درحقیقت اس محنت کا عوض ہے جو اس نے صحیح بات تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرکے کی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:عام طور پر ایک روایت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر غلطی ہو تو ایک اجر ہے اور اگر درست ہو تو دہرا اجر ہے۔ اس روایت کے بارے میں کچھ قیل وقال ہے۔ لیکن قرآن میں اجر کے مرتب ہونے کے جو اصول بیان ہوئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات ٹھیک لگتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس غلطی پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے جس میں آدمی کا اپنا ارادہ اور نیت شامل نہیں ہے۔مجتہد یا قاضی چونکہ صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ غلطی کے باوجود اسے اجر ملنا سمجھ میں آتا ہے۔ درست فیصلے یا نتیجے پر دہرا اجر درحقیقت اس محنت کا عوض ہے جو اس نے صحیح بات تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرکے کی ہے۔
(مولانا طالب محسن)