سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جنوری 2008

ج: اس میں شریعت نے قانون سازی نہیں کی لیکن ادب کاتقاضا یہی ہے کہ آپ چاہیں تو پانی میں بہا دیں چاہیں تو جلا دیں تاکہ بے حرمتی نہ ہو ، یہ آداب کی چیز ہے ، شریعت نے کوئی پابند نہیں کیا

(جاوید احمد غامدی)

ج: عام معاشرتی تعلقات میں جو دوستی ہوتی ہے وہ آپ کسی بھی انسان سے کر سکتے ہیں ، اس پر اللہ تعالی نے کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن وہ دوستی جو اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہو وہ کسی غیر مسلم سے نہیں کرنی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وہ لوگ جو اللہ کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتے ہیں او رجان بوجھ کر حق کا انکار کرتے ہیں ، ان کے لیے ابدی ہوگی باقی کے لیے نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں ہمیشہ محققین کی ضرورت رہے گی ، یہ ایک زندہ دین ہے اس میں ہمیشہ تحقیق ہوتی رہتی ہے اور نئے مسائل پیش آتے رہتے ہیں تو ان میں رائے بھی قائم کرنا ہوتی ہے ۔اللہ کی کتاب پر بھی لوگ غور کرتے رہتے ہیں، جب تک اللہ نے یہ دنیا قائم رکھی ہوئی ہے ، محققین پیدا ہوتے رہیں گے اس میں پانچ دس سال کاکوئی سوال نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: محقق پیدا ہوتے ہیں ، بنائے نہیں جا سکتے البتہ تربیت کر کے ان کو بہتر کیا جا سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ذکر تو بیشک قرآن میں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی قرآن نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ کھلی آنکھوں سے جو آسمان آپ دیکھتے ہیں یہ ایک آسمان ہے ، باقی چھ ماورا کہیں اور ہیں، تفصیل ہم کو معلوم نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیویوں پر تادیب کا اختیار نہیں ہے بلکہ ان خواتین پر ہے کہ جو بیوی بن کررہنے سے انکار کر دیں۔ یعنی بیوی جب تک بیوی کی حیثیت سے رہے اس وقت تک آپ کو کوئی اختیار نہیں۔ قرآن نے یہ کہا ہے کہ جب وہ نشوز اختیار کریں یعنی گھر کے نظام ہی سے بغاوت کر دیں ، شوہر کو شوہر ماننے سے ہی انکار کر دیں اور جو بیوی کے تقاضے ہوتے ہیں ان کو پورا کرنے سے انحراف کریں۔ اس موقع پر قرآن نے معاملات کو درست کرنے کے لیے ایک بڑی ہی جامع ہدایت دی ہے ۔ ایک طریقہ تو علیحدگی کا ہوتا ہے لیکن یہ کوئی آسان نہیں ہوتا ، بچے ہوتے ہیں اور بسا اوقات خاندان برباد ہوجاتے ہیں ۔ قرآن نے کہا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک نصیحت کرو تاکہ یہ انحراف اور بغاوت ختم ہوجائے ۔ پھر فرمایا کہ اگر اس سے بھی بات نہیں بنتی اور بیوی گھر اور گھر کے تقدس کو پامال کر رہی ہے بغاوت کر رہی ہے تو واھجروھن فی المضاجع، پھر ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو، ہو سکتا ہے یہ چیز ہی ان کی اصلاح کا باعث بن جائے ۔ جب اس میں بھی کچھ عرصہ گزر جائے ا ور محسوس ہو کہ یہ بھی اصلاح کا باعث نہیں بنی تو پھر اس کے بعد ان پر ہاتھ اٹھا سکتے ہو ، یہ ہے تادیب کا اختیار۔ اگر یہ نہ ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ پھر گھر کو برباد ہونے سے بچانے کا کون سا طریقہ ہے۔ جو آدمی اپنے ذوق کے لحاظ سے یہ اختیار کرنا نہیں چاہتا وہ پھر رخصت کر دے اور نتائج بھگتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کے لیے یہ سزا تجویز فرمائی تھی اور یہ ان پر لاگو ہو گئی ۔ا س کے بارے میں دونوں باتیں ممکن ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی کہ ان کی شکل مسخ ہو گئی اور یہ بھی کہ وہ اپنے وجود میں اندر سے بالکل جانور ہو کر رہ گئے ۔ میرا رحجان یہی ہے کہ وہ physically تبدیل ہو گئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: احناف یہ کہتے ہیں کہ جب تک سایہ آدمی کے قد کے دگنے (دومثل )کے برابر نہیں ہوجاتا ، نماز کا وقت شروع نہیں ہوتا۔ اہلحدیث کہتے ہیں کہ جب سایہ ایک آدمی کے قد کے برابر ہو جائے یعنی ایک مثل ہو جائے تو وقت شروع ہو جاتا ہے اس طرح کے معاملات میں جہاں اجتہاد کااختلاف ہوتا ہے ، اللہ تعالی انسان کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کی رائے صحیح ہو لیکن میرا رحجان یہ ہے کہ جس وقت سورج غروب کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائے ، عصر کا وقت شروع ہوتا ہے ۔ یعنی اہل حدیث حضرات سے ذرا بعد میں اور احناف سے ذرا پہلے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر صبح اٹھنے کا امکان نہیں تو پھر وتر کو ترجیح دینی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہر چیز کو تعمیم میں نہیں لینا چاہیے ۔ عام طور پر اللہ کا طریقہ یہی ہے ،البتہ وہ قادر مطلق ہے ۔ کبھی کبھی وہ اپنی حکمت کے مطابق سارے اسباب کے خلاف بھی فیصلہ فرما دیتے ہیں ۔

(محمد صدیق بخاری)

ج: جب تک شفق غائب نہیں ہو جاتی۔یہ وقت اندازاً ایک گھنٹے کے قریب ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اشرف المخلوقات کی بات افسانہ ہے ، قرآن نے یہ بات نہیں کی ۔ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انسانوں کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ہے یعنی یہ نہیں کہ سب مخلوقات پر فضیلت دی ہے ۔ یہ نہ قرآن کا موقف ہے اور نہ پیغمبر ﷺکی بات ہے ،یہ لوگوں کی بات ہے ۔قرآن کا بیان صرف اتنا ہے کہ فضلنا علی کثیر ممن الخلق یعنی ہم نے اپنی بہت سی مخلوقات پر انسان کو فضیلت دی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کا سوال غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ اسلام میں عورتوں اور مردوں کے درمیان کوئی مطلق فضیلت کا تصور نہیں ۔نہ مرد کو عورت پر مطلق فضیلت دی گئی ہے نہ عورت کو مرد پر بلکہ اللہ تعالی نے اپنا یہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی فضلنا بعضھم علی بعض ۔ اللہ تعالی نے کچھ معاملات میں عورتوں کو اور کچھ میں مردوں کو غیر معمولی صلاحیتیں دی ہیں۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ گھر کا نظم و نسق چلانے کے لیے مرد کا ایک درجہ برتر ہو گا جیسے باپ کا بیٹے پرہوتا ہے تاکہ گھر کا نظم و نسق چلتا رہے ۔ گویا فضیلت ہے بیوی پر ایک درجہ ،شوہر کو، نہ کہ سارے مردوں کو ساری عورتوں پر۔جیسے اولاد پر ایک درجہ باپ کو اور ماں کو فضیلت ہوتی ہے۔یہ گھر کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک انتظامی فضیلت ہے، یہ کوئی نسلی فضیلت نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ اس ضمن میں جو روایتیں بیان کی جاتی ہیں وہ بالکل ضعیف ہیں ، ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں ۔ قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں، وہ لیلتہ القدر کے بارے میں ہے ۔ اسلام میں فضیلت کی رات لیلتہ القدر ہے جو کہ رمضان میں ہوتی ہے ۔ شب برات کے بارے میں جتنی چیزیں ہیں وہ بہت کمزور ہیں اور زیادہ تر لوگوں نے ان کو تہوار بنانے کے لیے اہمیت دے ڈالی ہے ورنہ دین میں اس رات میں عبادت یا اس طرح کی چیز کا کسی مستند ذریعہ سے کوئی سراغ نہیں ملتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کی خدمت کے لیے جو جماعتیں کام کر رہی ہیں ان میں سے جس پر بھی آپ کا اطمینان ہو یا جو آپ کے ذوق کے مطابق ہو،آپ اس کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔اگر آپ کو اطمینان نہیں تو آپ تنہا بھی حسب حیثیت دین کی خدمت کر سکتے ہیں، جماعت یا تنظیم میں شامل ہونا لازم نہیں۔لیکن خیال رہے جماعت یا تنظیم جس طرح لاز م نہیں اس طرح ممنوع بھی نہیں۔ آپ دین کی خدمت کتنی اور کس طرح کر سکتے ہیں،یہ آپ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ میں نے اپنے لیے الگ سیٹ اپ اس لیے بنایا کہ جو تنظیمیں اس وقت کام کر رہی ہیں میں محسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے جو میدان منتخب کیے ہیں، وہ میرے ذوق کے میدان نہیں ۔ میرا ذوق علم ، تحقیق اور دعوت کا ہے اور یہ چیز بہت حد تک عنقا ہو چکی ہے ۔عام طور پر سیاست کا غلبہ ہے ، اس وجہ سے میں نے اپنے آپ کو ان سے الگ ہی رکھا ہوا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس آیت کے مخاطب صحابہ کرامؓ ہیں ، آیت کو پڑھیے اسی سے واضح ہو جائے گا ۔ اس میں صحابہ کو یہ بتایا گیاہے کہ تم ایک درمیانی امت ہو ، ایک طرف رسولﷺ ہیں جنہوں نے تم پر خدا کی گواہی دی ہے اور ایک طرف دنیاکی قومیں ہیں اور درمیان میں تم کھڑے ہو تو خودآیت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کے رسول انسانی طبیعت کے لحاظ سے کوئی نیا حکم لے کر نہیں آئے بلکہ تمدن کی تبدیلی کے لحاظ سے قوانین میں کچھ تبدیلی کرنا پڑتی ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک زمانے میں لوگوں کی معیشت زیادہ تر گلہ بانی پر مشتمل تھی تو اس میں قربانی کے احکام بہت زیادہ تھے ، جب یہ دور گزر گیا تو اس کو محدود کر دیا گیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ جس میں جذبات بہت برانگیختہ ہوتے ہیں اس وجہ سے یہ ناموزوں بات ہے ، بہتر یہی ہے کہ الگ الگ تعلیمی درسگاہوں کا انتخاب کیا جائے ۔لیکن یہ شرعاً ناجائز نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

 ج: اگر والدہ کی بات معقول وجہ پر مبنی ہے تو آپ کو اس پر توجہ دینی چاہیے ۔اگر ظلم یا خاندانی تعصب یا محض دشمنی پر مبنی ہے تو اطاعت نہیں کرنی چاہیے آپ کو بہر حال حق کا اورانصاف کا ساتھ دینا ہے ۔حق اور انصاف کے بغیر ان کی بات مانیں گے تواللہ کی نافرمانی کریں گے اور اللہ کی نافرمانی میں کسی کی طاعت نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآ ن نے یہ بات بڑی صراحت سے کہہ دی ہے کہ یعمشرالجن والانس الم یاتکم رسل منکم کہ اے جنو اور انسانو ! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ میرے پیغمبر تمہارے اندر سے تمہارے پاس آئے اور یہ چیز ویسے بھی خدا کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے کہ ان کے لیے اور ہمارے لیے ا یک دوسرے کے رسول واجب الاطاعت ہوں ۔ اللہ نے قرآن مجید میں واضح کہا ہے کہ انسانوں میں انسانوں کے اندر سے پیغمبر بنا کر بھیجوں گا ۔جنات کے بارے میں قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے معاملات کو دیکھتے ہیں، ہم ان کے معاملات کونہیں دیکھ سکتے۔ اگروہ ہمارے معاملات کو دیکھتے ہیں تو ان پر اجمالی ایمان لازم ہے کہ ہمارے پیغمبروں پر بھی ایمان لائیں یعنی شریعت ان کے پیغمبروں کی ہو گی لیکن حق کا وہ انکار نہیں کرسکتے ۔یہی چیز ہے جس کو انہوں نے اپنی قوم میں بیان کیا کہ خدا کی دعوت نازل ہوئی ہے ، جس طرح پہلے تورات کی دعوت تھی ، اب قرآن کی دعوت ہے ۔اگر ہم ان کو دیکھتے تو ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے تھا ۔ قرآن میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جنوں کے لیے جنوں کے پیغمبر ہیں او رانسانوں کے لیے انسانوں کے پیغمبر ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ صرف اللہ کے پیغمبروں کا کام ہے کہ وہ کسی خاص موقع پر لعنت کریں اور اس طرح کی دعا کریں جس طرح کی دعا کا ذکر رسول اللہﷺ کے بارے میں سورہ آل عمران میں آیا ہے ۔ ہم حقیر انسان اس مقام پر نہیں ہوتے کہ کسی حق کے بارے میں اس درجے کے اطمینان سے کوئی بات کر سکیں ۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دلیل سے اپنی بات پیش کریں اور بہت humble طریقے سے اپنی بات پیش کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر لیں ۔ کسی کی سمجھ میں آگئی ہے تو ٹھیک ،نہ آئے تو اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے ۔ یہ مباہلے یہ challenge اس طرح کی چیزیں کسی عام انسان کے شایان شان نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی بھی انسان جب اللہ کی کتاب پر غور کرتا ہے تو انسانوں میں عقل کے اختلاف کی وجہ آیات اور احکام کو سمجھنے میں بھی اختلافات ہو جاتے ہیں۔ اختلاف ہونا کوئی بری چیز نہیں لیکن اختلاف جب مخالفت بن جائے تو اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر ہم یہ رویہ اختیار کر لیں کہ بھائی ہم نے یہ بات سمجھی ہے ، ہمیں اس کے دلائل زیادہ وزنی لگتے ہیں، اگر آپ کوا پنی بات زیادہ مدلل لگتی ہے تو آپ اس پر عمل پیرا رہیے ۔ ہم اپنی بات کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن اس کا امکان تسلیم کرتے ہیں کہ وہ غلط بھی ہو سکتی ہے جب دلائل سے واضح ہو جائے گی ، تو غلطی مان لیں گے ۔آپ کی بات غلط تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی بات بھی صحیح ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ رویہ اختیار کر لیا جائے تو کینہ ،بغض اورقتل و غارت کاکوئی سوال نہیں۔ اصل معاملہ رویوں کی اصلاح اورتربیت کاہے۔اختلاف نہیں رک سکتا، اختلاف تو ہو گا ۔ایک عدالت دوسری عدالت سے بسا اوقات اختلاف کر رہی ہوتی ہے لیکن ایک سسٹم کے تحت معاملات چلتے رہتے ہیں ، کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔اسی طرح دینی معاملات کا معاملہ ہے ، ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اختلاف کرنے کے آداب نہیں سیکھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بات میں حق بھی ہے اور باطل بھی۔ جب ایک قوم پندرہ بیس کروڑ کی تعداد میں ہو تو اس ساری قوم کو آپ ایک رویے پر نہیں لا سکتے ۔ اس کے کچھ قومی حقوق بھی ہوتے ہیں جن کے حصول کی وہ کوشش کرتی ہے ،اور وہ حقوق ملنے چاہیے اصل میں ایک تواز ن رہنا چاہیے ۔ اصول میں یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مسلمان وہاں اخلاقی لحاظ سے بہتر رویہ اختیار کریں اور احتجاج کی سیاست کے بجائے اپنی اہلیت کو آزمانے کی کوشش کریں توان کے لیے بہتر نتائج ہونگے ۔ لیکن ہندستان کے تناظرمیں یہ پوری بات نہیں ہے ۔قومی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد بھی ضروری ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلی بات تو یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے بعد اس طرح کا کوئی اقدام جاری نہیں رہا ۔ ہماری تاریخ اس سے خالی ہے ، بعد کے لوگوں نے جو اقدامات کیے انہوں نے کبھی بھی اسے اس کے ضمن میں نہیں جانا بلکہ جیسے فاتحین فتح کرتے ہیں ایسے ہی معاملات کو دیکھا ۔ تاریخ میں کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ ہم اتمام حجت کے بعد لوگوں پر مسلط کر دیے گئے ہیں اور ہمیں یہ کام کرنا ہے ۔ اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ اللہ کی سنت بالکل صحیح طریقے سے ظہور پذیر ہوئی ۔ جہاں تک صحابہ کرامؓ کے اعلان نہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ اعلان خود قرآن مجید کر رہا ہے ۔ البتہ قرآن کے اس اعلان کے فہم میں علوم و فنون کی تشکیل کی وجہ سے کچھ رکاوٹیں پچھلی صدیوں میں حائل ہو گئیں، ان کو دور کرنے میں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ وقت لگ جاتا ہے ۔ یہ وقت مجھے بھی لگ گیا۔یہ بات کہ صحابہ کی خصوصی حیثیت تھی ۔ ہم خود اس سے صرف نظر کرتے رہے ورنہ یہ بات ہماری قدیم کتابوں میں اتنی وضاحت سے بیان ہوئی ہے کہ شاید ہی کوئی اور بات بیان ہوئی ہو ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک چیز خدا کا علم ہے اور ایک چیز وہ آزمائش ہے جس میں اللہ نے انسانوں کو ڈالا ہے ۔ اس آزمائش میں جس طرح اس چیز کی ضرورت ہے کہ آدمی کو ایک فطری ہدایت دے کر بھیجا جاتا ، اسی طرح اس کی بھی ضرورت ہے کہ اس کو تذکیر و نصیحت کی جائے۔ تو تذکیر و نصیحت جو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے تو یہ گویا اس کی اپنی اسکیم کا حصہ ہے ۔اس ضمن میں اللہ اپنی تخلیق کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں ۔ یہ اس فرض کا ابلاغ ہے جو خود خالق کائنات پر ان کے اس اقدام(آزمائش کے نتیجے میں عائد ہو جاتا ہے ، یہ انہیں کرنا ہی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انفرادی طور پر عبادت کرنا بہترہے ۔ اللہ کے پیغمبرﷺ نے اسی کو پسند فرمایا ہے اور زیادہ فضیلت اسی کی ہے کہ آپ اکیلے میں گھر کے کسی کونے میں عبادت کریں ۔ فرض نماز اہتمام سے مسجد میں پڑھنی چاہیے البتہ نوافل گھر ہی میں پڑھنے چاہیےں۔رسول اللہﷺ کا یہی طریقہ تھا کہ آپ عام نمازوں کے نوافل بھی ہمیشہ گھر ہی میں پڑھتے تھے ۔ حضورﷺ نے یہاں تک فرمایا اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رحمت للعالمین ہونے سے ہرگز یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ آپ تمام مخلوقات کے نبی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے بارے میں یہ کہا گیا کہ فضلنھم علی العالمین تو کیاان کو اللہ تعالی نے جنات کے معاملے میں بھی فضیلت دی تھی ؟ اس بات کو ہمارے علما میں سے کوئی بھی نہیں مانتا کہ تما م بنی اسرائیل کو جنات پر بھی فضیلت تھی اور ان کے تمام انبیا جنات کے بھی نبی تھے ۔ عالمین کے الفاظ قرآن میں وسعت کو بیان کرنے کے لیے آتے ہیں اور بالکل موجود دنیا کے لیے آجاتے ہیں ۔وسعت بیان کرنے کے لیے یہ عربی زبان کا خاص اسلوب ہے ۔ جنات میں نبی جنات ہی میں سے آئے ہیں البتہ جنات چونکہ ہمارے انبیا سے واقف ہوتے ہیں اس لیے جس طرح ہم پر پہلے نبیوں پر ایمان لانا لازم ہے ، ایسے ہی انسانوں کے انبیا پر ان کا ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔بشرطیکہ ان تک دعوت پہنچ گئی ہو اور ان کے علم میں آ گیا ہو۔ اگر ہم بھی جنات کے نبیوں سے باخبر ہوتے تو ہم پر بھی ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ، اس لیے کہ حق کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ ایمان اجمالی ہوتا ہے جیسے حضرت مسیحؑ ، حضرت موسیؑ پر ہمارا ایمان ہے ۔ شریعت میں ہم محمد ﷺ کی پیروی کرتے ہیں اور مانتے سب کو ہیں ۔ یہ بات قرآن سے بالکل واضح ہے کہ نبیﷺ کی جنات سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی بلکہ اللہ کی کتاب جب انہوں نے سنی تو حضور کو وحی کے ذریعے سے یہ بات بتائی گئی ۔ اگر روایتوں میں اس کے برعکس کوئی بات بیان ہوئی ہے تو وہ قرآن کے بالکل خلاف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمان ہونا تو ضروری ہے اس لیے کہ اللہ کا نام لیکر اس نے ذبح کرنا ہے۔ لیکن اگر کوئی اہل کتاب میں سے بھی اللہ کا نام لیکر ذبح کرتا ہے تو اس کا ذبیحہ بھی صحیح ہو گا ۔ یہود اللہ کا نام پر ذبح کرتے ہیں آپ اس کو کھا سکتے ہیں۔ باقی جانور کو ذبح کرنے کا یہ طریقہ تمام انبیا کے ہاں موجود رہا ،اس کو تذکیہ کہتے ہیں۔اس میں ضروری ہے کہ پوری گردن نہ کاٹی جائے بلکہ اس طرح کاٹی جائے کہ زیادہ سے زیادہ تڑپ کر جانور کا خون نکل جائے ۔یہ خون سے پاک کرنے کا طریقہ ہے کیونکہ خون حرام ہے ۔ پوری گردن نہیں کاٹنی چاہیے الا یہ کہ غلطی کی وجہ سے ایسا ہو جائے ۔ صرف اللہ اکبر کہنا کافی نہیں بلکہ تذکیہ کے اس طریقے کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے ۔یہ وہ سنت ہے جسے جاری کیا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صرف وہ زیور مستثنی ہے جو عورتیں شب و روز پہنے رکھتی ہیں۔ جو گھر میں ان کے عام استعمال کا زیور ہے۔باقی سب پہ آپ زکوۃ دیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خبث گندگی ہے اور خبائث وہ چیزیں ہیں جو انسان کو لاحق ہو سکتی ہیں۔ اس میں جنات کی اور دوسری در اندازیاں بھی شامل ہیں ، ان سب سے اللہ تعالی کی پناہ مانگی گئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تسبیح سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو تمام عیوب سے پاک قرار دیا جائے ۔ اس کے لیے سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھناچاہیے۔ یہ وہ کلمات ہیں جو پیغمبرﷺ نے ہمیں سکھائے ہیں ۔ ان کو معانی کے شعور کے ساتھ پڑھا جائے ۔یعنی اللہ ہر عیب سے پاک ہے ، ہر شرک سے پاک ہے اور وہ تنہاذات ہے جس سے مجھے اپنا تعلق رکھنا ہے تو یہ گویا خدا کو اس کی تسبیح کے ساتھ یاد کرنا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین دنیا میں مسائل ختم کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ کچھ مسائل کو پیدا کرنے کے لیے آیا ہے ، اس لیے دین سے مسائل کو حل کرنا یہ دور جدید کی بد مذاقی ہے ۔ ایک آدمی اچھی خاصی رشوت لے رہا ہوتا ہے ، کوٹھیاں کاریں ہوتی ہیں اور دین آتا ہے تو رشوت کو ممنوع قرار دے دیتا ہے تو دین مسائل پیدا کرتاہے۔ تاکہ ان مسائل کے ذریعے سے آپ کا امتحان ہو اور آپ اپنے رب کی اعلی نعمتیں جنت میں حاصل کریں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نمرود اتنا بیوقوف نہیں تھا ، بہرحال اگر وہ ایسا سوال کرتا تو اللہ اس کے اطمینان کا سامان کرتے یا اس پر اتمام حجت کرتے ۔اپنے پیغمبر کو رسوا نہ کرتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آخر ت کو سامنے رکھا جائے تو دینی ہے اور صرف دنیا کو سامنے رکھا جائے تو معاشی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین اس لیے نہیں آیا کہ دنیا کے مسائل کو حل کرے۔دنیا کے مسائل کے حل کے لیے اللہ نے انسان کو بصیرت دی ہے وہ استعمال کرنی چاہیے ۔ دین اس لیے آیا ہے کہ جب آپ دنیا میں اپنے مسائل حل کررہے ہوں تواخلاقی تزکیہ کے بارے میں خبردار رہیں ، ایسا نہ ہو کہ آپ کے نفس پر کوئی آلائش آجائے کیونکہ قیامت میں آپ کو پاکیزہ نفس لیکر خدا کے حضور حاضر ہونا ہے ۔ دین علم اور عمل کی پاکیزگی کی دعوت ہے نہ کہ دنیا کے پیداواری اور غیر پیداواری مسائل کو حل کرنے کی دعوت ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سورہ توبہ کے بارے میں چونکہ رسول اللہﷺ کی طرف سے یہ سنت قائم ہو گئی کہ اس کے اوپر بسم اللہ نہیں لکھی گئی ، حضور نے اللہ سے اسی طرح قرآن پایا اور اسی طرح امت کے اندر چھوڑ کر گئے ، اس لیے سورہ توبہ کی تلاوت میں بسم اللہ نہ ابتدا میں پڑھنی چاہیے اور نہ ہی درمیان میں پڑھنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیوی اپنے زیورات پر خود زکوۃ ادا کرے ، اگر شوہر سمجھتا ہے تو وہ اس کی طرف سے ادا کر دے یا باپ ، بھائی ، بیٹا کوئی بھی ادا کر دے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: زکوۃ تو ایک لازمی کٹوتی ہے جو اللہ تعالی نے عائد کر دی ہے ، انفاق فی سبیل اس سے آگے کی چیز ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:خود قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انفاق ایک بڑی نیکی ہے اور یہ اعلانیہ بھی ہوتا ہے اور بغیر ظاہر کیے بھی ہوتا ہے یعنی آدمی چھپا کر بھی کرتا ہے اور بعض اوقات اس طرح کے محرکات کے تحت اعلانیہ بھی کرتا ہے ، اصل میں نیت صحیح ہونی چاہیے یعنی مقصد کیا ہے ، مقصد لوگوں کو اپنی برتری دکھانا ہے یا کسی حکمت کے تحت ایسا کر رہے ہیں تو اس کا تعلق اس سے ہے کہ آپ کی نیت کیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دعوت اس لیے دینی چاہیے کہ آپ اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائیں اور آپ کے پاس اللہ کے ہاں پیش کرنے کے لیے عذر ہو کہ میرے پاس جو حق تھا وہ میں نے پہنچا دیا ۔ اس کا کوئی نتیجہ ظاہر ہو یا نہ۔بعض اوقات اس کا نتیجہ اچھے معاشرے کی صورت میں نکل آئے گااور کبھی نہیں بھی نکلے گا۔ پہلے نصب العین اور ہدف کو جاننا چاہیے کہ آپ یہ کام کس لیے کر رہے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کسی آدمی سے کہیں کہ نماز پڑھو اس لیے کہ اقم الصلوۃ لذکری یعنی اللہ کی یاد کے لیے۔یہ آپ نے نماز کا صحیح مقصد بیان کر دیا اور نماز کی صحیح دعوت دے دی۔ یعنی فجر سے دن کی ابتدا کرے ، ذرا کام میں مصروف ہو تو پھر ظہر کے وقت حاضر ہو جائے ، پھر عصر کے وقت اور پھر مغرب کے وقت حاضر ہو جائے تاکہ خدا کی یاد اس کے ذہن میں ہر وقت رہے ۔ یہ تو ہوئی نماز کی اصل دعوت لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ نماز سے یہ فائد ہ ہو گا کہ بار بار وضو کرنے سے آدمی پاک رہے گا ، یا ڈسپلن پیدا ہو جائے گایا سیلف کنٹرول حاصل ہوجائے گا ، تو یہ آپ نے نماز کے ضمنی فوائد بتائے اصل مقصد اوراصل دعوت اوجھل رہی۔ جو آدمی ان ضمنی فوائد کو سامنے رکھ کر نماز پڑھے گا وہ نماز کو غارت کر ے گا۔ بالکل اسی طرح جو شخص یہ سمجھ کر دعوت دے گا کہ مجھے صالح معاشرہ پیدا کرنا ہے وہ حدود سے متجاوز ہو جائے گا ۔ اسی سے وہ سیاست بازی کا شکار ہو جائے گا ۔ لیکن جس کے سامنے یہ ہو گا کہ میں نے اپنے رب کے سامنے عذر پیش کرنا ہے ، تو وہ پھر ہر حال میں دعوت دے گا۔ صالح معاشرہ پیدا ہو یا نہ۔باقی یہ کہ صالح معاشرہ پیدا کرنے کے لیے آدمی کو کچھ نہیں کرنا چاہیے تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آدمی کو اپنے معاش کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہیے ۔ دین کا مقصد آخرت ہے ۔ خدا کا دین اس لیے آیا ہے کہ آخرت کو ایک حقیقت بنا کر آپ کو بیدار کر دے اور یہ بتا دے کہ آپ کو ایک دن اپنے مالک کے حضور پیش ہونا ہے تو ہمارے معاشرے میں لوگوں نے چیزوں کو ان کے مقصد سے ہٹا دیا ہے تو ہر چیز خراب ہو گئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ڈاکٹر حمید اللہ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ پیرس میں ہر روز آٹھ سے نو لوگ مسلمان ہوتے ہیں ۔ سبب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ معلوم نہیں۔اصل میں یہ کتاب اپنا راستہ بناتی رہتی ہے ، بدترین حالات میں بھی بناتی رہتی ہے ۔لیکن اگر اس کتاب کا پیغام پہنچانے والے اس پر عامل بھی ہوں اور مسلمانوں کی عملی زندگی اس کتاب کا عملی نمونہ ہو تو مسلمان ہونے کی شرح بہت تیز ہو جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضر میں چوبیس گھنٹے اور سفر میں تین دن حد ہے ۔ اس کے بعد آپ کو وضو کر لینا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ضروری نہیں ، پرانے زمانے میں آواز بلند کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا ، اور اسی طرح آواز کو دائیں بائیں زیادہ دور تک پہنچانے کے لیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بہترین انفاق وہ ہے جو خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جائے ، جس کا مقصد تزکیہ حاصل کرنا ہو ۔ اس کی اعلی ترین قسم وہ ہے کہ آدمی اپنی کسی ضرورت کو روک کر کسی دوسرے کی ضرورت پوری کرے ۔ اوردوسروں کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضرورت پر ترجیح دے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ ایک پیغمبر کے انذار کی روداد ہے جو انہوں نے ایک قوم کو پہنچائی اور اس پر اللہ کی حجت پوری کی۔ قرآن اپنے مخاطب کے لحاظ سے ہی تمثیلیں ، واقعات اورتاریخ بیان کرتا ہے جنہیں وہ سمجھ سکیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضرت ابوبکرؓ دین حنیفی اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے اور ایسے بہت سے لوگ تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ قرض پر منفعت کوسود کیوں کہا جاتا ہے ۔ قرض میں آپ دوسرے کو روپیہ دیتے ہیں اور جب دوسرے کو روپیہ دیتے ہیں تو وہ اس کو اس طرح استعمال نہیں کرتا جیسے مثال کے طور پر میں اس میز ا ور کرسی کو استعمال کر رہا ہوں ۔ وہ اس کو خرچ کر دیتا ہے ، یعنی وہ اس کو فنا کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد جب آپ اس سے اصل زر کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ اس کو نئے سرے سے پیدا کرکے دینا ہوتا ہے۔اور پھر ساتھ ہی جب آپ منفعت کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ ظلم ہے ۔ مکان اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا کہ وہ پورا خرچ ہوجائے یعنی فنا ہو جائے ۔بلکہ آپ مکان کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور اس کا کرایہ دیتے ہیں۔ جب آپ ایک رقم قرض لیتے ہیں تو آپ یقینا اس کو خرچ کریں گے ، اب اس رقم نے دوبارہ پیدا ہونا ہے اور پھر ادا ہونا ہے۔ جبکہ کرائے کے مکان میں ایسا نہیں ۔چیزوں کے استعمال کا کرایہ اور چیز ہے اور پیسہ پر سود اور چیز ہے ۔اگر استعمال کا کرایہ ختم کردیا جائے تو یہ چیز تمدن کوختم کردے گی ، آپ جہاز اور گاڑی میں بھی بیٹھنے کا کرایہ دیتے ہیں ، یہ تمام استعمال کے کرائے ہیں ، اس میں دوبارہ چیز پیدا نہیں کرنی پڑتی ۔اس لیے ان دونوں کا معاملہ یکساں نہیں ہے ، روپے ا ور چیز کے استعمال کا معاملہ بالکل الگ الگ ہے ۔چیز استعمال کے بعد بعینہ واپس ہوتی ہے جبکہ روپیہ دوبارہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جو ذمہ داریاں حکومت کی ہیں ان کے لیے حکومت کو توجہ دلانی چاہیے اور اپنی ذمہ داریوں کو خود ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں رزق حلال تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کسی مجبوری میں پھنس جائیں تو اللہ تعالی معاف فرمائیں گے۔ اور مجبوری کے بارے میں انسان کا ضمیر بتا دیتا ہے کہ وہ واقعی مجبوری ہے یا بہانے تراش رہا ہے ۔ حکومت کوا پنا کام کرنا چاہیے اور ہمیں ہر طرح کے اچھے اور برے حالات میں برائی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خبر واحد علم حدیث کی فنی اصطلاح ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ وہ خبر جو درجہ تواتر تک نہ پہنچی ہو ۔ ایک دو تین چار روایوں کی بات کو خبر واحد کہتے ہیں۔ یہ ایک آدمی کے لیے نہیں استعمال نہیں ہوتی بلکہ ایک اصطلاح ہے اور خبر متواتر کے برخلاف استعمال ہوتی ہے اور حدیث کی تمام کتابیں اخبارواحد ہی کی کتابیں ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرے خیال سے یہ روایات ٹھیک ہیں ۔یہ شخص اصل میں ان چندلوگوں میں سے ہے جن کے قتل کا فیصلہ خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کر دیا تھا اور یہ بتا دیا تھا کہ اگر یہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان کو قتل کردیا جائے گا ۔ اشکال اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اس کو حضورﷺ کا فعل سمجھتے ہیں، یہ خدا کے حکم کے مطابق کیا گیا اور قرآن میں یہ حکم موجود ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: چار گواہوں کا تعلق بدکاری سے نہیں بلکہ ایک ایسی خاتون اور ایک ایسے مرد پر تہمت لگانے سے ہے کہ جس کے بارے میں سب مطمئن ہیں کہ ان کا کردار و اخلاق مسلم ہے ۔ ایک شخص نے اس پر تہمت لگا دی ہے تو ارشاد فرمایا کہ تہمت کا معاملہ ایسانہیں کہ آپ بات کریں اور پولیس پکڑ کر لے جائے اور مقدمہ دائر کر دے ، کم سے کم چار آدمی لائیے ، پھر مقدمہ رجسٹر ہو گا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد سزا دے دی جائے گی ، اب اس مقدمے کی تحقیق ہو گی ، اس کے بعد سزا کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو گا ۔ یہ اصل میں لوگوں کو تہمتوں سے روکنے کے لیے ہدایت کی گئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: موت کا مرحلہ کیسا ہے ، اس کے بارے میں ہم محض قیاس ہی بیان کر سکتے ہیں ۔ ہم اس کی اصل نوعیت کو نہیں جانتے ۔ اللہ نے کسی مرحلے میں جو تکلیف رکھی ہوتی ہے اس کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں جو ہم نہیں جانتے ۔بعض اوقات تکالیف انسان کی کوتاہیوں کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کے دنیا میں آنے کا معاملہ بھی بہت تکلیف دہ ہے لیکن یہی تکلیف ہے جو ماں کے اندر وہ جذبات پیدا کرتی ہے جو بعد میں نازک لمحات میں اس کی پرورش کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔ خدا کی پوشیدہ حکمتوں کاانسان کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ۔ انسان کو اپنے بارے میں یہ جاننا چاہیے کہ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا یعنی ہمارے پاس بہت کم علم ہے ، وہ اپنی حکمتوں کو خود ہی جانتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جی ہاں ، بالکل لازم ہے ، قرآن کے اسلوب سے یہی بات معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی ایسا نہیں کرتا تو اس پر مواخذہ ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تمام اخلاقی بیماریو ں سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بار بار سمجھاتا رہے کہ ان سے گریز کرنا ہے۔ آہستہ آہستہ نفس بات سننے لگتا ہے ۔ جب کبھی حسد محسوس ہو تو اللہ سے استغفار کرے اور استغفار کے ساتھ ساتھ اس آدمی کے حق میں جس سے حسد پیدا ہوا ہے دعا بھی کرے اور اگر اس کی بھلائی کے لیے کوئی کام کر سکے تو وہ بھی کر ڈالے ۔امید ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ وہ حسد سے بچ جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: علم کلام وہ علم ہے جس میں مذہب کے لیے عقلی دلائل فراہم کیے جاتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دعا ، ان کے لیے گڑگڑا کر دعا کیجیے ۔حدیث میں آیا ہے کہ جب صالح اولاد دعا کرتی ہے تو اللہ اس کے ذریعے سے خطائیں معاف کرتے ہیں لیکن اگر کوئی خدا سے سرکشی کر کے گیا ہے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس وقت تک درخواست کرتے رہیں جب تک کہ اللہ روک نہ دے۔ انبیا نے اپنے اسوہ سے یہی تعلیم دی ہے۔ سیدنا ابراہیم،ؑ والد کے کفر وعناد کے ظاہر ہونے کے باوجود، جب تک خدا نے منع نہیں کیا،دعا کرتے رہے ۔ حضورﷺ کو منافقین کے بارے میں کہا گیا کہ آپ ستر مرتبہ بھی دعا کریں گے تب بھی معاف نہیں کیا جائے گا تو حضور نے کہا کہ میں اکہتر مرتبہ کروں گا۔ بندے کا کام درخواست کرتے رہنا ہے جب تک کہ مالک خود ہی منع نہ کر دے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک شخص نے اپنی اولاد کو عمل صالح کی تربیت دی تو اولاد کے نیک اعمال کا ثواب اس کو بھی ملے گا اور اولاد کو بھی ملے گا ۔ اولاد کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں صدقہ جاریہ بن جا تی ہیں ، انسانوں کی خدمت بھی جب تک کہ اس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے اس کا ثواب ملتا رہتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی حرج کی بات نہیں۔اس کی تعلیم خود قرآن نے دی ہے کہ جب لوگ اپنی جانوں پر ظلم ڈھالیں تو یہ حضور کے پاس آکر کہیں کہ آپﷺ بھی ہمارے لیے دعا فرمائیں ۔ خود بھی دعا کریں اور دوسروں سے بھی کہیں۔ یہ اصل میں بندگی کا اظہار ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:آدمی جب بار بار کسی کلمے کو دہراتا ہے تو اس پر توجہ ہوجاتی ہے اس وجہ سے اس کو اختیار کر لیا جاتا ہے ۔ایک روایت میں بھی یہ چیز آئی ہے اس لیے اس کو بدعت نہیں کہاجا سکت آپ چاہیں تو اس کو اختیار کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: امت مسلمہ اس جگہ پر پہنچی ، عرب و عجم پر اس کا اقتدار قائم ہوا ۔ قریبا ًایک ہزار تک اس کی حکومت رہی ۔ صحابہ کرام نے اس دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کی ، یہ سب ہو چکا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی نشاندہی خود اللہ تعالی نے قصہ آدم و ابلیس میں کر دی ہے ۔ انسان کے اوپر حملہ اس کی خواہشات و شہوات کے راستے سے ہو گا اس لیے اپنی خواہشات اور شہوات کو ذرا لگام دے کر رکھیے

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن کاپہلا باب سورہ فاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور مائدہ پر ختم ہوتا ہے ۔ یہ اصل میں ایک طرف یہود و نصاری پر اتمام حجت کا باب ہے اور دوسری طرف یہ صحابہ کرامؓ کی ایک نئی جماعت کے نئے مقام پر کھڑا ہونے کا باب ہے۔ اسی میں شریعت دی گئی ہے جس کی ہم کو اتباع کرنی ہے اور اسی میں دین کے بنیاد حقائق واضح کیے گئے ہیں۔اسی میں ہم سے میثاق لیا گیا ہے ۔اب ظاہر ہے کہ جب بھی اس امت کو قرآن پڑھنا ہے تو اس کے لیے مقدم یہی ہے کہ اس کو خدا کی شریعت اور اس میثاق کو جاننا چاہیے کہ جو اس نے خدا سے کیا ہے۔اور اس کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ پہلی امتوں کے ساتھ کیا ہوا اور اب اس امت کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے کیا کرنا ہے۔ اس لیے قریش کے انذار کی جو چیز ہے وہ پس منظر میں رکھی گئی ہے اور یہ چیز سامنے لائی گئی ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ عمارت میں سب سے پہلے بنیادیں رکھی جاتی ہیں لیکن عمارت بننے کے بعد وہ سب سے نیچے چلی جاتی ہیں ۔قرآن نے یہ ترتیب اس لیے الٹی ہے تا کہ اس امت کو اپنی ذمہ داریوں کی تبلیغ اور ادراک ہو جائے۔ قرآن اگر غیر مسلموں کے سامنے پیش کرنا ہو تب بھی اس کا بہترین باب یہی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود و نصاری کا دین ،ان کے مقدمات سب اسی میں زیر بحث لائے گئے ہیں۔مسلمانوں کے لیے بھی سارا دین اس میں بیان ہوا ہے اور ان سے جومیثاق لیا گیا ہے وہ بھی اسی میں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی شریعت سے ناواقف لوگ (جو یہود و نصاری نہیں) ان تک دعوت پہنچانی ہو تو تب آخری باب زیادہ موثر ہے چونکہ امت نے اس کو زیادہ سمجھنا ہے اور زیادہ پڑھنا ہے اس لیے ان دونوں گروہوں پر خدا کی حجت پوری کرنی کے لیے اس باب کو پہلے رکھا گیا اور اس کے اندر بالکل واضح حکمت محسوس ہوتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)