جواب:اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی آمدنی مکمل یا اکثر حرام ہے، تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کی آمدنی کے حلا ل و حرام ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ غیرمسلم ممالک میں نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کی حلال وحرام مخلوط آمدنی اس کے حق میں ہے، ملازم کے حق میں تو اس کی اجرت ہے۔ جہاں تک مسئلہ بینک کے سود کا ہے تو سود خواہ بینک کے ذریعہ ہو یا کسی بھی ذریعہ سے ہو وہ حرام ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب :قسم کھانے سے احتراز بہتر ہے، تاہم اگر کسی نے جائز امر کی قسم کھائی ہے تو اسکو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ لیکن اگرکوئی اپنی قسم پوری نہ کرسکے تو توبہ واستغفار کرے اورقسم توڑنے کا کفارہ دے۔ کفارہ میں دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کپڑے دیدے۔ اگر ان دونوں کی استطاعت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ماتطعمون اہلیکم او کسوتہم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: جھینگے کی حلت و حرمت کا دارومدار اس پر ہے کہ جھینگا مچھلی ہے یا نہیں؟ ماہرین لغت اس کو مچھلی کی ہی ایک قسم مانتے ہیں۔ جبکہ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی تسلیم نہیں کرتے ۔ اس لئے جو حضرات اس کو مچھلی قرار دیتے ہیں وہ حلال کہتے ہیں اور جو اس کو مچھلی نہیں مانتے وہ اس کو حرام کہتے ہیں۔ زیادہ راجح اس کا مچھلی ہونا ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب :رواداری کی مصلحت کے پیش نظر رمضان میں غیر مسلم کی طرف سے افطار کی دعوت میں شرکت کرنا درست ہے، بشرطیکہ اس کو کوئی سیاسی رخ نہ دیا جائے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: مشروم بارش کے بعد زمین سے اگنے والی ایک سفید نباتات ہے، جس میں کسی طرح کی کوئی قباحت شرعاً نہیں ہے۔ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے اس لئے مشروم کھانا جائز ہے۔ البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مشروم زہریلا نہ ہو کیونکہ بعض مرتبہ زہریلا مشروم بھی زمین سے اُگ آتا ہے؛ اس لئے احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب:اگر کوئی خلاف شرع امر نہ پایا جائے،کوئی مذہبی موقع نہ ہو، اسی طرح کسی مفسدہ کا خطرہ نہ ہو تو اگرکھانا حلال ہے تو دعوت میں جانا بھی درست ہے اور دعوت دے کر اپنے گھر مہمان نوازی کرنا بھی درست ہے۔ مسلمانوں کو غیروں سے بھی معاملات اچھے رکھنے چاہئیں۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: کھیل کے سلسلے میں شریعت کے بنیادی اصول یہ ہیں۔ جن کھیلوں کی احادیث و آثار میں ممانعت آگئی ہے وہ ناجائز ہیں جیسے نرد،شطرنج کبوتر بازی اور جانوروں کو لڑانا ۔ جو کھیل کسی حرام و معصیت پر مشتمل ہوں وہ ا س معصیت یا حرام کی وجہ سے ناجائز ہوں گے ۔ جو کھیل فرائض اور حقوق واجبہ سے غافل کرنے والے ہوں وہ بھی ناجائز ہیں ۔جس کھیل کا کوئی مقصد نہ ہو بلا مقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلا جائے وہ بھی ناجائز ہوگا کیوں کہ یہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ایک لغو کام میں ضائع کرنا ہے۔ جو کھیل بدن کی ورزش، صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لیے یا کسی دوسری دینی و دنیوی ضرورت کے لیے یاکم از کم طبیعت کا تکان دور کرنے کیلیے ہوں اوران میں غلو نہ کیا جائے کہ انہی کو مشغلہ بنالیا جائے اور ضروری کاموں میں ان سے حرج پڑ نے لگے تو ایسے کھیل شرعاً مباح اور دینی ضرورت کے نیت سے ہوں تو ثواب بھی ہے۔
مذکورہ بالا اصول کو سامنے رکھ کر سوال میں مذکورہ کھیلوں کا جائز ہ لیا جاسکتاہے۔سوال میں اسنوکر اور بلئیر کا تذکرہ ہے جس کی حقیقیت اور کیفیت کا ہمیں علم نہیں ہے اس لیے اس کا حکم ذکر کرنے سے گریز ہے۔ تاش:کھیلنے کو فقہاء نے منع کیا ہے اس لیے کہ اس میں ایک تو تصاویر ہوتی ہیں اور بالعموم اس سے جوا کھیلا جاتا ہے، فساق و فجار کے کھیلنے کا معمول ہے، اسی طرح انہماک بھی غیر معمولی ہوتا ہے، اس لیے تاش کھیلنا ناجائز ہے۔ہاں تعلیمی تاش جس میں حروف سے الفاظ بنائے جاتے ہیں جو بذات خود تعلیمی طور پر مفید ہے عام طور پر اس سے جوا نہیں کھیلا جاتا ہے اس لیے اگر اس میں بے جاانہماک نہ ہو تو جائز ہے۔ کیرم بورڈ: اس کھیل میں بذات خود کوئی بات ناجائز نظر نہیں؛ البتہ اس میں بعض اوقات انہماک اتنا ہوجاتا ہے جو فرائض سے غافل کردیتا ہے ایسا انہماک بالکل ممنوع ہے البتہ جسمانی یا ذہنی تھکن دور کرنے کے لیے دوسرے ممنوعات سے بچتے ہوئے اگر کچھ وقت کے لیے کھیل لیا جائے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ لوڈو:کا بظاہر وہی حکم ہے جو کیرم بورڈ کا ہے بشرطیکہ کوئی اور ممنوع چیزمثلاً تصویر وغیرہ نہ ہو۔ وڈیوگیمز: جدید کھیلوں میں اس کا رواج بہت بڑھ رہا ہے اصولی طور پر یہاں بھی کھیلوں کے مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھا جائے گا وڈیوگیمز میں اگر جاندار کی تصاویر ہوں تو یہ جائز نہیں ہے۔اوراگر جاندار کی تصاویر نہ ہوں بلکہ گاڑی یا جہاز کی تصاویر وغیرہ ہو اور صرف تفریح کے لیے کھیلا جائے تو ان شرائط کیساتھ جائز ہوگا۔ اس میں جوا شامل نہ ہو۔ نماز ضائع نہ ہو۔ حقوق العباد پامال نہ ہوں ۔ پڑھائی اور ضرور ی کام متاثر نہ ہوں ۔ اسراف نہ ہو۔ مذکورہ تمام کھیل مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہیں لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ان شرائط کی رعایت نہیں ہوپاتی ہے بلکہ بعض کھیل جنون کی حد تک پہنچ جاتے ہیں جیسے وڈیو گیمز وغیرہ اس لیے گو اصولی طور پر یہ جائز ہیں لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے عدم جواز تک پہنچ جاتے ہیں اس لیے اس طرح کے کھیلوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: بکر نے دودھ پیا تو بکر سے رضاعت ثابت ہوگی اور بکر کے لئے رضاعی بہن سے یا اس کی اولاد سے نکاح حرام ہوگا، لیکن زید کا اس رضاعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے زید کا نکاح اسی خالہ کی لڑکی سے درست ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: والد کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے تاہم مذکورہ نکاح درست ہوگیا۔ اصل مقصود تعارف اور لڑکی کی تعیین ہے، اور مذکورہ صورت میں لڑکی متعین ہوگئی تو نکاح درست ہوگیا۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: عورت مسلمان ہو کر کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے، وہ مسلمان ہونے کے بعد تین حیض گزار لے اور پھر نکاح کرے تو نکاح درست ہوجائے گا۔ اسلام لانے کے بعد تین حیض گزرنے سے خود بخود نکاح ختم ہوجائے گا۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ اور اگر بھول جائے تو یاد آنے پرکھانے کے درمیان بسم اللہ اولہ وآخرہ پڑھنا حدیث شریف سے ثابت ہے (ترمذی شریف)۔ کھانے کے درمیان بسم اللہ، الحمدللہ وغیرہ کی صراحت والی کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری تاہم نعمت خداوندی پر شکرگزاری کی روایات بکثرت ہیں۔ اس لئے اگر بغیر لازم سمجھے کوئی ذکر کرے تو مباح و درست ہے، اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: مذکورہ شخص اگر قرآن کریم حفظ پڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، قرآن کریم اچھی طرح پڑھنا جانتا ہے تو حفظ پڑھانے کے لئے اس کا تقرر درست ہے۔ حفظ پڑھانے کے لئے خود حافظ ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر خود بھی حافظ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ باقی تین سال میں حفظ مکمل کرلینے کا وعدہ ہے تو محنت کرنی چاہئے، لیکن اگر حفظ مکمل نہ کرسکے تو بھی اس کا عہدہ پر بحال رہنا اور تنخواہ لینا جائز ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب : اپنی زمین کسی کو اس طرح کرایہ پر دینا کہ اس میں جو بھی غلہ پیدا ہوگا وہ مالک زمین اور کاشتکار میں نصف نصف تقسیم ہوگا، یہ معاملہ درست ہے۔ البتہ اس کا خیال رہے کہ غلہ کی پیداوار کم یا زیادہ بھی ہوسکتی ہے اس لئے فی صد ہی متعین ہو، اگر کسی نے اپنے لئے کچھ غلہ متعین کرلیا کہ پیداوار جو بھی ہو مجھے اس میں سے اتنی مقدار پہلے نکال دی جائے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: بیع ایک عقد ہے جسے پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صورت مذکورہ میں اس کی نیت ہے کہ خرید کر کام کرکے واپس کردوں گایعنی عقد کے ساتھ ہی عقد کو ختم کرنے کی نیت کرنا ہے جو کہ اوفوا بالعقود کے خلاف ہے اس لئے مشتری کا یہ عمل کہ خرید کر واپس کردوں گا یہ درست نہیں ہے۔ نیز واپس کرنے میں ایک قسم کا دھوکہ بھی شامل ہے اس لئے کہ واپس کرنے والا بظاہر یہ نہیں کہتا ہے کہ میری ضرورت پوری ہوگئی اس لئے واپس کررہاہوں، بلکہ وہ اپنے عمل سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ چیز میں لے کر گیا تھالیکن مجھے یہ سامان پسند نہیں ہے، اس لئے میں واپس کررہا ہوں اس طرح وہ نفع اٹھانے کو چھپاتاہے جبکہ اس نے نفع اٹھاکر سامان کو کسی نہ کسی درجہ میں عیب دار بنادیا ہے۔البتہ اگر وہ بائع کو صاف بتادے کہ میں نے سامان خریدا تھا پھر کچھ استعمال کیا اور اب واپس کرنا چاہتاہوں اور بائع سامان واپس لے لے تو کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن صورت مذکورہ ایک دھوکہ ہے جو کہ کسی صورت جائز نہیں۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب : آپ کے سوال سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ وخیرات کے لئے قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہی مقصد ہے تو قرض لینا جائز ہے لیکن قرض لینے سے حتی الامکان احتراز کریں۔ نفلی صدقہ وخیرات واجب نہیں ہیں، نہ دیں تو کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، لیکن اگر قرض ادا نہ کرسکے تو عنداللہ مواخذہ ہوگا۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب : کرایہ کے مکان وغیرہ میں اصلاح و مرمت کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے اس لیے کہ کرایہ دار نفع وصول کرتا ہے اور اس نفع کے عوض وہ اجرت دیتاہے اس لیے کرایہ کے سامان میں اگر کوئی خرابی ہوتی ہے اس کی ذمہ داری مالک کے اوپر ہوتی ہے۔تاہم اگر دونوں باہم مشورہ سے یہ طے کرلیں کہ کرایہ کے سامان میں اصلاح و مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی اور جن چیزوں کی اصلاح کی بات کی گئی ہے وہ متعین بھی ہے تواس طرح کی شرط لگانا درست ہے اور خراب ہونیکی صورت میں اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی۔تاہم مذکورہ مسئلہ میں جو خرابی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری مالک پر ہوگی کرایہ دار پر نہیں ہوگی اس لیے کہ کرایہ دار پر اصلاح و مرمت کی ذمہ ڈالنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کرایہ دار کی کوتاہی اور غلطی سے سامان خراب ہوا تو اس کی اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی جب کی یہاں پر جو سامان خراب ہوا ہے اس میں کرایہ دار کی کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے ان چیزوں کی اصلاح کی ذمہ داری مالک مکان پر ہوگی۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب:ایسی صورت میں قرآن شریف اٹھاکر بوسہ دیدینا ہی کافی ہے، کسی طرح کا صدقہ وغیرہ لازم نہیں ہے۔ اس کو ضروری نہ سمجھنا چاہئے۔ البتہ اگر اس غلطی کے بعد ثواب کی نیت سے کچھ صدقہ کردے تو بہتر ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب : وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے، اور احادیث حب وطن کے جواز پر دلالت کرتی ہیں تاہم مذکورہ جملہ حدیث کی کتابوں میں ہمیں نہیں ملا۔ ہوسکتا ہے کسی نے اپنی طرف سے بیان کیا ہو اور یہ مطلب لیا ہو کہ وطن سے محبت ایمان کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب : ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ان شاء اللہ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب : مسواک جس طرح مردوں کے لئے سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی سنت ہے۔ اگر مسواک کرنے میں کوئی دشواری ہو یا مسواک نہ ہو تو انگلی کا استعمال اس کے قائم مقام ہوجاتاہے ۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: آپ نے جو پڑھا وہ ٹھیک پڑھا، جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ ناپاکی کی حالت میں اب تک جو نمازیں پڑھی گئیں سب واجب الاعادہ ہیں۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب : قصداً اقامت ترک کرنا مکروہ ہے، تاہم نماز ہوجائے گی۔ ایک ہی شخص کا اقامت اور امامت کرانا درست ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )