جواب : مسواک جس طرح مردوں کے لئے سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی سنت ہے۔ اگر مسواک کرنے میں کوئی دشواری ہو یا مسواک نہ ہو تو انگلی کا استعمال اس کے قائم مقام ہوجاتاہے ۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
جواب: استعمال کے بعد مسواک کو دھونا ضروری نہیں اور شیطانی عمل کا کسی روایت میں ذکر نہیں۔ مسواک کے لیے بالشت کی شرط بھی ثابت نہیں۔ مٹھی میں پکڑ کر مسواک کرنے کی کہیں ممانعت وارد نہیں، نہ ہی مسواک کو لیٹ کر کرنے کی ممانعت ہے۔ مسواک کو میز وغیرہ پر رکھنے کا کوئی حرج نہیں اور اس سے کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔ مذکورہ آداب خود ساختہ ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ نہیں۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: جو لکڑی منہ میں پھر سکے، وہی کافی ہے مسواک کی کوئی حدبندی نہیں۔ ان صورتوں میں منہ میں انگلی پھیر لے، یہی کافی ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: مسواک کے لیے بنیادی بات یہ ہے کہ منہ کے طول و عرض میں پھر سکے۔ مسواک منہ کے لیے طہارت کا سبب ہے اور پروردگار کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب: زوال شمس سے قبل مسواک کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے روزے کی حالت میں بھی اور عام دنوں میں بھی۔ زوال کے بعد مسواک کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک زوال کے بعد مسواک کرنا صرف مکروہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس لیے روزے دار کو چاہیے کہ اس پسندیدہ چیز کو برقرار رکھے اور مسواک کرکے اسے زائل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شہیدوں کو ان کے خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کی تلقین ہے کیونکہ قیامت کے دن ان کے خون آلود کپڑوں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔
میری رائے یہ ہے کہ حدیث میں روزے دار کے منہ کو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ قراردینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ کسی صحابی سے مروی ہے کہ :
ارایت النبی یتسوک مالا یحصی وھو صائم۔
’’میں نے نبیؐ کو اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا کوئی شمار نہیں حالانکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔‘‘
مسواک کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، حضوؐر کی سنت ہے اور حضوؐر نے بارہا اس کی ترغیب دی ہے۔ حدیث میں ہے:
السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب
’’مسواک منہ کے لیے پاکی کا باعث اور خدا کی رضا کا موجب ہے۔‘‘
اسی طرح دانتوں کی صفائی کے لیے روزے کی حالت میں پیسٹ کا استعمال بھی جائز ہے۔ البتہ اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ اس کا کوئی حصہ پیٹ میں نہ چلا جائے۔ کیونکہ جو چیز پیٹ میں چلی جاتی ہے روزہ توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسٹ کا استعمال غایت درجہ احتیاط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ پیٹ میں چلا جائے تو میرے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ جان بوجھ کر اس نے وہ چیز پیٹ میں نہیں پہنچائی بلکہ غلطی سے چلی گئی اور اللہ کے نزدیک یہ بھول چوک معاف ہے۔ حدیث میں ہے:
رفع عن امتی الخطا والنسیان وما استکر ھوا علیہ۔
’’میری امت بھول چوک کے معاملے میں اور زبردستی کوئی غلط کام کرائے جانے کے معاملے میں مرفوع القلم ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)