ج: اصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو تکلیف اور جو مصیبت بھی آتی ہے وہ ہمارے جرائم کی سزا بھی ہوسکتی ہے اور آزمائش بھی۔بعض اوقات ہماری کوتاہیوں کی سزا ہوتی ہے ،بعض موقعوں پر قدرت نے جو اسباب پیدا کیے ہیں ان کو استعمال نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے ۔یہ دنیا عالم اسبا ب ہے ۔اس میں مادی اسباب کی اپنی اہمیت ہے اور اخلاقی اسباب کی اپنی۔ دونوں چیزیں سزا کاباعث بن سکتی ہیں۔ آپ نے حفظان صحت کے اصولوں کی پیروی نہیں کی ،کھانے پینے میں احتیاط نہیں برتی تو آخر کچھ نتیجہ تونکلے گا ۔ یہ چیزیں عالم اسباب میں اپنا کام کرتی ہیں۔ اسی طرح اخلاقی قوانین بھی کام کرتے ہیں ۔ آپ نے کوئی غلطی کی یااللہ تعالی کے ساتھ کوئی بدعہدی کی یا انسانوں کے ساتھ برامعاملہ کیا تو اللہ اس کی سزا بعض اوقات اس دنیا میں بھی دے دیتے ہیں ۔یہ سزا صرف اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرنے والے کو نہیں دی جاتی بلکہ سچے اہل ایمان کو بھی ان کو کسی غلطی سے نجات دلانے کے لیے دے دی جاتی ہے تاکہ وہ سزا بھگت کر اللہ کے ہاں پاک ہو کر چلے جائیں۔سزاکے پہلوکوبہرحال سامنے رکھنا چاہیے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ اللہ نے ایک عمومی امتحان برپا کر رکھا ہے ۔دنیا امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے اور اللہ اپنے بندوں کا امتحان لے رہا ہے۔ قرآن مجید میں اس نے واضح کر دیا ہے کہ یہ امتحان بیماریوں کے ذریعے ، جنگ و جدال کے ذریعے ’ غربت کے ذریعے ، مصیبت و مشکلات کے ذریعے لیتا ہوں۔ پھر اس امتحان کے دوسرے پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا ہے کہ بعض اوقات میں بڑی نعمتیں دے کر ،اقتدار دے کر ’ حسن دے کر ’ بے پناہ علم دے کر ’ بے پناہ دولت دے کر بھی امتحان کر تا ہوں تاکہ یہ معلوم ہو کہ بندہ اکڑتا ہے ،اس کو اپنا استحقاق سمجھتاہے یا میرا شکر گزار ہو کر رہتا ہے ۔ بعض اوقات اللہ تعالی کسی شخص کے اوپر کوئی مصیبت نازل کر کے ’ اسے دوسروں کے لیے عبرت بناتے ہیں یعنی دوسروں کے لیے گویا اس میں نصیحت کا سامان ہوتا ہے۔ بچوں پر، معصوم لوگوں پر اسی اصول کے تحت تکلیفیں آتی ہیں ’ اسکا ازالہ اللہ قیامت میں فرمائے گا۔لیکن دنیا میں لوگوں کے لیے یہ معاملہ کر دیتا ہے۔یہ بڑے بڑے پہلو ہیں۔
اپنے احوال پر ہم کو ہر وقت غور کرتے رہنا چاہیے ۔عالم اسباب میں ہم نے جو غلطیاں کی ہوتی ہیں وہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کہاں ہم نے کیا غلطی کی ہے۔ ایسے ہی اخلاقی لحاظ سے جب انسان غلطی کرتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو بتا دیتا ہے کہ تم نے غلطی کی ہے۔ اگر آپ کواحساس ہو جائے کہ ایسا ہوا ہے تو اللہ سے معافی مانگنی چاہیے اور ہر تکلیف کو یہ خیال کر کے قبول کرلینا چاہیے کہ میرا پروردگار میرے لیے پاکیزگی کا ساما ن کر رہا ہے ۔
رہ گئی یہ بات کہ بظاہر یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ کیا معاملہ ہے تو کوئی بات نہیں ۔ اللہ کاامتحان اور آزمائش ہو سکتی ہے۔ اس کے معاملے میں وہی رویہ اختیار کیجیے جو ایک بندہ مومن کو کرنا چاہیے یعنی جب بند ہ مومن صبر کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کے سامنے ڈال دیتا ہے اور اس طرح کی مصیبت یاتکلیف میں یہ اطمینا ن دلا دیتا ہے کہ مالک میں نے اس کو قبول کر لیا ہے ۔تو اس رویے سے بہت کم عرصے میں تکلیف ختم ہوجاتی ہے ۔یعنی اگرانسان امتحان میں پورا اترنے کا حوصلہ کر لے تو اللہ اس کے لیے اسباب پیدا کر دیتے ہیں اور اگر اس کے باوجود کوئی معاملہ نہ ہورہا ہو تو پھر یہ ہے کہ اللہ ہماری تطہیر کر رہے ہوتے ہیں۔اس پر ایمان رکھ کر اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہو جانا چاہیے ۔
دو اور دو چار کی طرح انسانی معاملا ت میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ تکلیف اس وجہ سے آگئی ہے اور وہ تکلیف اُس وجہ سے آگئی ہے۔ انسان خود ہی اس معاملے میں اپنا جائزہ لے کر بہتر رائے قائم کر سکتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سود لکھنے اور گواہی دینے کے زمرے میں تویقینا آتی ہے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ لیکن اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ سود کا کاروبار ایسے ہی پھیل چکا ہے جیسے کسی زمانے میں غلامی پھیل چکی تھی ۔ آپ یہ دیکھیے کہ اسلام نے ا س وقت غلامی کیساتھ کیا معاملہ کیا؟ ایسا معاملہ نہیں کیا کہ لوگوں کو کسی بڑی مشقت میں مبتلا کر دیاہو بلکہ بتدریج اس کی اصلاح کی ، اس کے راستے بند کیے اور وہ قوانین بنائے جن کے ذریعے سے سوسائٹی سے غلامی کاخاتمہ ہوا۔
سود بھی ایک اخلاقی برائی ہے۔ اسلام کا اس پر اعتراض یہی ہے کہ یہ ایک اخلاقی برائی ہے ۔آپ کو قرض پر متعین منفعت لینے کا حق نہیں ہے ۔یہ چیز دوسرے کا مال غلط طور پر کھانے کے مترادف ہے ۔لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پوری معیشت کانظام ہی اس پر چل رہا ہے ۔ایسے میں جن لوگوں کو ملازمت کرنی پڑتی ہے ،ان کے لیے بھی وہی قواعد ہوں گے جومیں نے غلامی کے لیے بیان کیے۔ یعنی بتدریج اس کے خاتمے کا کام کرنا ہو گا۔ آدمی اگر بہتر ماحول میں جاسکے تو جانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے لیکن حالات کی وجہ سے ا للہ تعالی سے درگزر کی توقع بھی رکھنی چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہہ کر اصل میں ہم نماز سے فارغ ہوتے ہیں اور یہ بڑا پاکیزہ طریقہ ہے کہ اللہ کے حضور میں ہم گئے تھے تو اس سے واپسی کی کوئی علامت ہونی چاہیے ۔جب ہم اللہ کے حضور سے واپس آتے ہیں ’ نماز پڑھنے کے بعد ’ تو اپنے دائیں بائیں اللہ کی مخلوق کے لیے سلامتی کی دعاکرتے ہیں اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا ۔
شہادت کی انگلی اصل میں توحید کی علامت کے طور پر اٹھائی جاتی ہے۔ نماز اور اسی طرح حج بھی اصل میں علامتیں ہیں ۔ایک علامتی اظہار ہے اللہ کے ساتھ تعلق کا ۔عبادات میں اسی طرح کی علامتیں اختیار کی جاتی ہیں یہ علامتی اظہار بہت اہم ہوتا ہے۔اس کو اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ کچھ چیزوں کی حقیقت ذہن میں قائم رہے۔لوگ اپنے ملک کے جھنڈے کو سلام کرتے ہیں ’ ترانہ پڑھتے ہیں تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی جذبات کا علامتی اظہار ہے ایک symbolic expression ہے تعظیم کا ’ اورآپ کے جذبات کا ۔ نماز میں بھی ایسے ہی کیا جاتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جنات کے بارے میں تو قرآن نے ہم کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اسی طریقے سے خیر و شر کی کشمکش میں ڈالے گئے ہیں جس طرح انسان ڈالے گئے ہیں، ان میں نیک بھی ہیں او ر برے بھی ’ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ۔چنانچہ جنوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ ان کا قیامت میں حساب ہو گا اورجزا و سزا کامعاملہ پیش آئے گا۔ فرشتوں کے بارے میں ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں بلکہ قرآن سے ا س کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی حضور ی میں رہتے ہیں ،کسی گنا ہ کا ارتکاب نہیں کرتے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے اس طرح کی کوئی آزمائش ،کوئی امتحان نہیں ہے جس کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جنات کے بارے میں تو قرآن نے ہم کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اسی طریقے سے خیر و شر کی کشمکش میں ڈالے گئے ہیں جس طرح انسان ڈالے گئے ہیں، ان میں نیک بھی ہیں او ر برے بھی ’ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ۔چنانچہ جنوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ ان کا قیامت میں حساب ہو گا اورجزا و سزا کامعاملہ پیش آئے گا۔ فرشتوں کے بارے میں ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں بلکہ قرآن سے ا س کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی حضور ی میں رہتے ہیں ،کسی گنا ہ کا ارتکاب نہیں کرتے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے اس طرح کی کوئی آزمائش ،کوئی امتحان نہیں ہے جس کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جنات کے بارے میں تو قرآن نے ہم کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اسی طریقے سے خیر و شر کی کشمکش میں ڈالے گئے ہیں جس طرح انسان ڈالے گئے ہیں، ان میں نیک بھی ہیں او ر برے بھی ’ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ۔چنانچہ جنوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ ان کا قیامت میں حساب ہو گا اورجزا و سزا کامعاملہ پیش آئے گا۔ فرشتوں کے بارے میں ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں بلکہ قرآن سے ا س کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی حضور ی میں رہتے ہیں ،کسی گنا ہ کا ارتکاب نہیں کرتے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے اس طرح کی کوئی آزمائش ،کوئی امتحان نہیں ہے جس کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جنات کے بارے میں تو قرآن نے ہم کو بتادیا ہے کہ وہ بھی اسی طریقے سے خیر و شر کی کشمکش میں ڈالے گئے ہیں جس طرح انسان ڈالے گئے ہیں، ان میں نیک بھی ہیں او ر برے بھی ’ جس طرح ہماری طرف اللہ کے پیغمبر آئے اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ کے پیغمبر آئے ۔چنانچہ جنوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ ان کا قیامت میں حساب ہو گا اورجزا و سزا کامعاملہ پیش آئے گا۔ فرشتوں کے بارے میں ایسی کوئی بات ہمارے علم میں نہیں بلکہ قرآن سے ا س کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی حضور ی میں رہتے ہیں ،کسی گنا ہ کا ارتکاب نہیں کرتے کبھی کوئی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان کے لیے اس طرح کی کوئی آزمائش ،کوئی امتحان نہیں ہے جس کے بعد قیامت میں ان کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نماز اصل میں رکوع و سجود ’ قعدے اورقیام کا نام ہے۔ سورہ فاتحہ یا قرآن تو اصل میں وہ اذکار ہیں جوان ارکان میں پڑھے جاتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں جو اللہ کی کتاب ہوتی تھی ،ان ارکان میں وہ پڑھی جاتی تھی۔ یہود کے ہاں نماز میں جو دعا پڑھی جاتی تھی وہ میں نے نماز کے ذکر میں لکھ دی ہے اور نصاری کے ہاں جو دعا پڑھی جاتی تھی وہ بھی لکھ دی ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو سورہ فاتحہ آگئی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ کا قانون ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی اضطرار یا مجبوری کی وجہ سے کوئی غلط کام کرتا ہے تو امید ہے اللہ اسے معاف فرما دے گا ۔لیکن اضطرار اور مجبوری کسے کہتے ہیں اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔اضطرار کی وہ کون سی نوعیت اور حالت ہوتی ہے جہاں انسان کو یہ رعایت مل سکتی ہے یہ جاننا بھی ضروری ہے ۔ انسا ن کا معاملہ اس سے ہے جو سینوں کے بھید بھی جانتاہے اور عمل کرنے کے پیچھے انسان کامحرک کیا تھا وہ بھی جانتا ہے ۔ بعض اوقات آدمی بہت معمولی باتوں کو مجبوری بنا لیتا ہے اللہ کے ہاں ا سکا راز کھل جائے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ تعالی نے اس آیت میں وہ بنیادی مطالبات بیان کیے ہیں جو تمام انسانوں کے لیے ضروری ہیں۔وہ ہیں اللہ کو ماننا ’ قیامت کے دن کو ماننااور نیک عمل کی بنیاد پر جوابدہی کے لیے تیار رہنا، یہی اصل دین ہے اس کو بیان کر دیا ہے ۔اب یہ بات کہ کو ن کون سے جرائم کی بنا پر انسان جہنم میں جا سکتا ہے یہ فہرست یہاں بیان نہیں کی ۔ مثال کے طو رپرجانتے بوجھتے قتل کی سزا اللہ نے ابدی جہنم بیان کی ہے اب مسلمان اللہ اور آخرت کو ماننے کے باوجود اگر قتل کر دے تو جہنم میں جائے گا۔ معلوم ہوا کہ ایمان کے باوجود ایسے جرائم ہیں کہ جن کا ارتکاب آدمی کو جہنم میں لے جا سکتا ہے ۔بالکل اسی طرح سے اگر آپ کوپتاچل گیا کہ فلاں شخص اللہ کابھیجا سچارسول ہے اور آپ نے جانتے بوجھتے انکار کر دیا ہے تویہ بھی ایسا جرم ہے کہ جس کی پاداش میں آدمی جہنم میں جا ئے گا۔البتہ سب یہودی عیسائی جنت میں جا سکتے ہیں بشرطیکہ انہوں نے جانتے بوجھتے حق کا انکار نہ کیا ہو۔ اس وقت دنیا میں جتنے عیسائی ، یہودی یا دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں ان میں سے کس کس نے جانتے بوجھتے حق کا انکا رکیا ہے،اور کو ن واقعی اشکال میں متبلا ہے اسکا فیصلہ اللہ کرے گا۔ اللہ تعالی نے جنت میں جانے کا ایک معیار بنایا ہے اس معیار پر وہ لوگوں کو پرکھے گا اور کسی نام کے بغیر دیکھے گا۔یعنی لازم نہیں کہ اس نے اپنا نام بھی مسلمان رکھا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اعلان کر دیاہے کہ مسلمان ہوں ، یہودی ہوں ، نصرانی ہوں محض اس وجہ سے کوئی جنت میں نہیں جائے گاکہ وہ مسلمان تھا یا یہودی تھا یا نصرانی تھا بلکہ اس وجہ سے جائے گاکہ ا س نے اللہ کوماناجس طرح ماننے کا حق تھا ، قیامت کو ماناجس طرح ماننے کا حق تھااور نیک عمل کی بنیاد پر اللہ کے ہاں پیشی کے لیے تیار رہا۔
جہنم میں تو انسان جرائم کی وجہ سے جائے گا اور یہ آیت یہ فہرست نہیں گنواتی ۔ سچے پیغمبر کا جانتے بوجھتے انکار بہت بڑا جرم ہے۔جیسے قتل بہت بڑا جرم ہے اس جرم کی پاداش میں انسان مسلمان کہلانے کے باوجود جہنم میں جائے گا۔ اسی سے سچے پیغمبر کا جانتے بوجھتے انکار سمجھ لیجیے ۔یا یوں سمجھیے کہ یہ آیت Positive merit بیان کرتی ہے۔ اس کو بیان نہیں کرتی کہ وہ کون کون سے جرائم ہیں جن کی وجہ سے انسان جہنم میں بھیجے جائیں گے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ تعالی نے یہ امتحان اپنے لیے نہیں بلکہ آپ کے لیے لیا ہے تاکہ آپ کو استحقاق کی بنیاد پر اجر دے سکے۔ اگر اللہ اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کر دیتا تو آپ قیامت میں کھڑ ے ہو جاتے کہ آپ نے تواستحقاق جاننے کے لیے موقع ہی نہیں دیا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج۔ یہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں بلکہ امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے۔ انصاف کے اصول کے اوپر آخرت قائم ہو گی ۔ اللہ تعالی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں نے اس کو انصاف کے اصول پر قائم نہیں کیا ، اس میں ظلم بھی ہو گا، اس میں کسی کوعبرت بھی بنایاجائے گا یہ سب معاملات ہوں گے۔ یہ امتحان کی جگہ ہے آپ ا س میں کامیاب ہونگے تو آگے انصاف آپکا منتظر ہو گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کہنے کی ضرورت کیا ہے ۔ اگر کوئی آدمی کوتاہی کر رہا ہے تو بھائی کو کوتاہی سے نکالنے کی کوشش کیجیے ، دعوت دیجیے، اس کو اللہ کاپیغام پہنچائیے او رباقی معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجیے ۔دوسروں کے بارے میں فتوے دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بیوی کے نان و نفقے کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے اگر کوئی آدمی واقعی اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتاتو حضور ؐ سے جب پوچھاگیاتو آپ ﷺنے فرمایا کہ تم اپنے خرچ کے لیے بغیر پوچھے لے سکتی ہو اس کو چوری نہیں کہاجائے گا ۔یہ خاوند کی ذمہ داری تھی۔لیکن اس کو جواز بنا کر آپ اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں اورجوجی چاہے کرنا شروع کر دیں تو اس کی ذمہ داری اللہ کے پیغمبر پر عاید نہیں ہوتی، اللہ بہر حال نیتوں کا حال جاننے والا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ لوگوں کے فہم میں تبدیلی آتی ہے۔ فہم،انسانی فہم ہے اوراس میں اختلافات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ان اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔کوئی آدمی کہتا ہے ایک واقعہ ایسے ہواتھا دوسرا تحقیق کر کے کہتا ہے نہیں ایسے ہوا تھا، اس سے آپ کے ایمان اور اخلاق میں کیا فرق پڑے گا۔تاریخی واقعات کے بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں اس میں گھبرانا نہیں چاہیے۔ دین بالکل واضح ہے یعنی اللہ ایک ہے ،محمد ﷺ اس کے رسول ہیں، قیامت میں اعمال کی بنیاد پرجوابدہی ہونی ہے ، خیر و شر کا شعور انسان کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے۔اسی طرح نماز ، روزہ، حج، زکوۃ بالکل واضح ہیں۔ہر ایک آدمی ان سے واقف ہے ۔یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کے بارے میں آدمی کو حساس ہونا چاہیے۔ باقی جو بھی واقعات بیان ہوں گے ان کے سمجھنے میں انسانوں کے مابین اختلافات ہونگے۔ آپ کوجو بات زیادہ معقول لگتی ہے اس کو قبول کر لیجیے ، جس بات کو آپ سمجھتے ہیں کہ معقول نہیں ہے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کیجیے ،اور اگر آپ محقق ہیں تو اپنی رائے کا اظہا ر کر دیجیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: التحیات میں السلام علیک ایھا النبی کے الفاظ ہمیں سکھا دیے گئے ہیں۔ اسے آپ عام زندگی میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔یہ سلام بھیجنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اس میں حضور پر بھی سلام بھیجا گیا ہے اور سب اہل ایمان پر بھی یہ سلامتی کی دعائیں ہیں۔ اصل میں درود، سلام یہ الفاظ جب بولے جاتے ہیں تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ کوئی الگ چیزیں ہیں ۔نہیں، بلکہ سلام سلامتی کی دعاہے ، درود رحمت بھیجنے کی دعا ہے۔ اللہ کے حضور میں آپ درخواست کرتے ہیں تویہ دعائیں ہیں اور کوئی خاص عمل نہیں ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: انجیل برنباس سیدنامسیحؑ کے ایک صحابی کی تصنیف ہے اور یہ حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں سے نہیں بلکہ انہی لوگوں کے ہاں سے ہوئی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد محققین نے مختلف آرا قائم کی ہیں کچھ لوگ اس کومشتبہ قرار دیتے ہیں، کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کی باتیں موجودہ اناجیل کے مقابلے میں زیادہ مستند ہیں۔ اس پر بہت اچھا مضمون مولانا سید ابو الا علی مودودی ؒ صاحب نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے سورہ صف میں غالبا اس کو آپ پڑھ لیں اس میں اس کا پس منظر بہت اچھے طریقے سے انہوں نے بیان کر دیا ہے۔ باقی جہاں تک عیسائی علماکا تعلق ہے وہ اس کو اپنی اناجیل سے الگ کر چکے ہیں ۔ ہم جب یہودیوں اور عیسائیوں سے بات کرتے ہیں تو اس کی بنیاد پر بات نہیں کر سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مخاطب اس کومانتا نہیں ہے تو اس کی بنیاد پر بات بھی اس سے نہیں ہو سکتی البتہ حصول علم کے لیے آپ اس کو پڑھیے۔ بہت سی چیزیں اس سے واضح ہوتی ہیں۔ یہ بھی اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کو بیان کرنے والے لوگوں نے بھی بہت سی اس میں تبدیلیاں کی ہیں ۔
یوحنا عارف کامکاشفہ موجودہ بائبل کاآخری باب ہے اور اس میں ایک خواب بیان کیا گیا ہے جس میں انبیا علیہ السلام کی امتوں پر گزرنے والے حالات بیان ہوئے ہیں۔ اس میں حضور ﷺ کی بڑی واضح پیشین گوئی ہے کہ وہ صادق اور امین ہو ں گے اور اس طرح آئیں گے۔پھریہ بتایاگیاہے کہ حضور ﷺ کے ایک ہزار سال بعد پھرایک دفعہ یاجوج و ماجوج کی اقوام کی طرف دنیا کااقتدا ر منتقل ہوناشروع ہو جائے گا اور پھر انہی کے غلبے سے قیامت برپاہو جائے گی۔ یوحناعارف کے مکاشفے میں آخری حصہ خاص طور پر بہت پڑھنے کا ہے اور عیسائی علمابھی اس کو قابل اعتنا سمجھتے ہیں اور بیان بھی کرتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: میرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے وہ نام جو لوگوں نے بنا رکھے ہیں۔ جو نام اللہ نے خود بیان کیے ہیں انکومیں ناموزوں قرار دینے کی جسارت کیسے کرسکتاہوں۔ لوگوں نے کچھ نام خود سے بنا لیے ہیں۔مثلا کچھ نام ایسے ہیں جو فعل سے بنا لیے ہیں۔ عربی زبان میں یہ بات تو کہناٹھیک ہے کہ اللہ تعالی اپنے قانون کے مطابق گمراہ بھی کرتا ہے، یعنی ایک آدمی نے اللہ کی ہدایت کی قدر نہیں کی تو اللہ کاقانون یہ ہے کہ جب اللہ کی ہدایت کی قدر نہیں کی جاتی تو ایک وقت تک اللہ مہلت دیتے ہیں پھر گمراہی میں ڈال دیتے ہیں۔یہ مکمل بات ہے ۔ لیکن اس سے آپ Adjective بنا لیں گمراہ کرنے و الا توبات بہت دور چلی جاتی ہے اور یہ بنالیا گیا ہے۔ ایک مثال میں نے آپ کو دے دی ہے اسی پر باقی قیاس کرلیجیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں لوگ اطمینان کیساتھ لوگوں سے شرکت اور مضاربت پر پیسے لیتے ہیں اور ہاتھ جھاڑ کر دکھا دیتے ہیں کہ نقصان ہو گیا ہے۔ میں تو لوگوں کو ہمیشہ کہتاہوں آپ قرض دیجیے اور یہ طے کر لیجیے کہ بھائی یہ میرا واجب الادا قرض ہے مجھے آپ بعد میں واپس کریں گے۔ اس رقم کے نقصان میں میں شریک نہیں ہوں،کیونکہ میں آپ کے فیصلوں میں بھی شریک نہیں ہوں البتہ اگرنفع ہو جائے تومجھے اس میں سے حصہ دے دیجیے گا۔ یہ سود نہیں ہے ۔ اگر نفع ہو جائے ،اس شرط کیساتھ آپ دے سکتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بات توآپ کر سکتے ہیں ،دینی لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ایسی چیزیں عموماً بڑی خرابیوں کا باعث بن جاتی ہیں ۔ اپنی معاشرتی اورتہذیبی روایات کے اندر معاملے کو رکھیں توخرابی کے امکانا ت بہت کم ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ بات کرنے پر اسلام نے کوئی پابندی نہیں لگائی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اسلام نے صرف انہیں چیزوں کو تبدیل کیا جو یہود و نصاری کے ماحول اور تمدن کے لحاظ سے خاص تھیں۔ ایک چیزہوتی ہے دین اور دین نام ہے ایمان اور اخلاق کا، یہ توتبدیل نہیں ہو سکتا ۔ یہ بات تبدیل نہیں ہوسکتی کہ اللہ ایک ہے نہ یہ بات کہ اللہ اپنی ہدایت پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجتا ہے۔نہ اس بات میں تبدیلی آ سکتی ہے کہ ہم سب کو ایک دن اس کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ۔ ایمان کے معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔اخلاقی معاملات بھی ابدی ہوتے ہیں ان میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جھوٹ جھوٹ ہے ، دیانت دیانت ہے ، بد دیانتی بددیانتی ہے۔ اس معاملے میں بھی کچھ نہیں بدلتا۔ اصل دین یہی ہے باقی قانون ہوتاہے یعنی اخلاقی تقاضوں کوکچھ قواعد وضوابط کا پابند کر دیا جاتا ہے اور یہ قواعد و ضوابط تمدن کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ہونے بھی چاہییں۔ قرآن نے یہ بتادیا ہے کہ یہود ونصاری کوتمدن کے لحاظ سے جوقانون دیا گیا تھا اس کی بعض چیزیں جو انہیں کیساتھ خاص تھیں ختم کر دی گئیں، بعض میں اصلاح کر دی گئی۔ اسلام چونکہ آخری شریعت ہے۔اوراگر یہودونصاری کی اصطلاح اختیار کرلی جائے توہم کہہ سکتے ہیں کہ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کے بعد یہ آخری عہد نامہ ہے۔ قرآن نے خود یہ بات بیان کر دی ہے کہ وہ پچھلے سارے کے سارے دین اور شریعت کا مہیمن ہے یعنی اس نے اس کو محفوظ بھی کر لیا ہے اس کی اصلاح بھی کر دی ہے اورجہاں کہیں کسی چیز میں تغیر کرناتھا وہ بھی کر دیا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قدرت اللہ شہاب اصل میں ایک بڑے ادیب تھے اس لیے آپ نے ان کی چیزیں پڑھ لیں ورنہ ہمارے سب صوفیا ایسی ہی باتیں بیان کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں اسی طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہیں۔ جتنے بڑے بڑ ے صوفیا ہیں ان کی آپ کتابیں پڑھیں تو قدرت اللہ شہاب کی باتیں ان کے سامنے ہیچ نظر آئیں گی۔ان کو معراج ہوتی ہے ، وہ اللہ سے ملاقات کرتے ہیں ، راہ چلتی چیونٹیاں ان کو اپنی باتیں بیان کرتی ہیں ، وہ دعوی کرتے ہیں کہ اگر کسی پہاڑ کی کھائی میں بھی کوئی چیونٹی چل رہی ہو اور ان کے علم میں نہ ہو تو اس کامطلب ہے کہ ان کا علم ناقص ہے ۔دنیا کانظم ونسق وہ چلاتے ہیں ، تمام تکوینی امور ان کے ذریعے سے انجام پاتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب تو بیچارے اس معاملے میں طفل مکتب ہیں دوچار باتیں انہوں نے بیان کر دی ہیں آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے ہمارے ہاں کتابیں بھری پڑی ہیں۔
اسی زمانے میں ایک مذہبی رہنماپیدا ہوئے، انہوں نے اپنے بارے میں بڑی کرامتیں اور اسی طرح کی چیزیں بیان کیں۔جب انہوں نے بیان کیں تو ان کے ساتھیوں نے بھی بیان کرنی شروع کر دیں ، اخباروں میں بھی بہت کچھ آنے لگ گیا ۔ اس پر ہمارے ایک دوست کہنے لگے کہ میری بڑی ذہنی الجھن حل ہو گئی۔وہ کہنے لگے کہ میں بزرگوں کے محیر العقل واقعات سن کر حیران ہوتا تھاکیسے ہوئے ہونگے ، معلوم ہواایسے ہی ہوئے ہونگے جیسے ہمارے اس صاحب کے ہوئے ہیں۔بس دنیا اسی طرح چل رہی ہے آپ بھی اس کودیکھتے رہیے ۔
ہدایت کا راستہ قرآن و سنت ہے ۔ اسی کو تھام کر رکھنااصل حل ہے ۔انسان کو چاہییے کہ وہ ہمیشہ بالکل صحیح علم اور پیغمبروں کی پہنچائی ہوئی ہدایت پر قائم رہنے کی کوشش میں لگا رہے ۔مزید یہ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی پر غور کرتے رہیے ان سے کوئی ایسا دعوی ثابت نہیں حالانکہ وہ دین کو ہم سب سے زیادہ سمجھنے اور عمل کرنے والے تھے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن نے ایسی کوئی بات نہیں کہی کہ مومنوں پر کفار غالب نہیں آ سکتے۔ غلبے کے لیے بہت سے قوانین ہیں ان کے مطابق ہی غلبہ ہوتا ہے انکے مطابق ہی شکست ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ اگر ایک آدمی مومن ہے تو ہر حال میں غلبہ پا لے گا۔ صحابہ کرام سے بڑھ کرمومن کونسی جماعت ہو سکتی ہے؟ ان کو بھی احد میں شکست سے دو چار ہونا پڑا ۔صحابہ کرام کے لیے بھی بتایاگیا ہے کہ تمہارے لیے غلبے کی بشارت صرف اس صورت میں ہے جب دشمنوں سے تمہاری مادی طاقت کم سے کم آدھی ہو۔یہ توہم مسلمان ہیں جنہوں نے فرض کر لیا ہے کہ غلیل پکڑ کر ہم امریکہ کو فتح کر لیں گے۔اس کانتیجہ کیانکلاہے پچھلے دو سو سال کی تاریخ آپ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس میں پے در پے شکست اور مایوسی ہے۔ سلطان ٹیپو کیساتھ یہی ہوا ہے، مہدی سوڈانی کیساتھ یہی ہوا، انور پاشا کیساتھ یہی ہوا ، ملا عمر کیساتھ یہی ہوا ، اسامہ بن لادن کیساتھ یہی ہورہا ہے اور مزید ابھی مسلمانوں کیساتھ یہی کچھ ہوگا۔ ہمارے خیال میں اتنا کافی ہے کہ ہاتھ میں تسبیح ہو اور منہ پر داڑھی ،غلبہ ہو جائے گا۔ایسا نہیں ہے قرآن نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ جب آپ حق پر ہونگے تو اللہ آپ کی مدد کرے گا۔ لیکن مادی اسباب صحابہ کے لیے بھی یہ کہا کہ کم سے کم نصف ہونے چاہییں۔ اس وقت ذرا اندازہ کیجیے کہ طاقت کاتوازن کیاہے اس کے بعد پھر اپنے عمل طرز عمل اور اخلاقیات کا بھی جائزہ لے لیجیے بات واضح ہو جائے گی۔
(جاوید احمد غامدی)