ج: انجیل برنباس سیدنامسیحؑ کے ایک صحابی کی تصنیف ہے اور یہ حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں سے نہیں بلکہ انہی لوگوں کے ہاں سے ہوئی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد محققین نے مختلف آرا قائم کی ہیں کچھ لوگ اس کومشتبہ قرار دیتے ہیں، کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کی باتیں موجودہ اناجیل کے مقابلے میں زیادہ مستند ہیں۔ اس پر بہت اچھا مضمون مولانا سید ابو الا علی مودودی ؒ صاحب نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے سورہ صف میں غالبا اس کو آپ پڑھ لیں اس میں اس کا پس منظر بہت اچھے طریقے سے انہوں نے بیان کر دیا ہے۔ باقی جہاں تک عیسائی علماکا تعلق ہے وہ اس کو اپنی اناجیل سے الگ کر چکے ہیں ۔ ہم جب یہودیوں اور عیسائیوں سے بات کرتے ہیں تو اس کی بنیاد پر بات نہیں کر سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مخاطب اس کومانتا نہیں ہے تو اس کی بنیاد پر بات بھی اس سے نہیں ہو سکتی البتہ حصول علم کے لیے آپ اس کو پڑھیے۔ بہت سی چیزیں اس سے واضح ہوتی ہیں۔ یہ بھی اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کو بیان کرنے والے لوگوں نے بھی بہت سی اس میں تبدیلیاں کی ہیں ۔
یوحنا عارف کامکاشفہ موجودہ بائبل کاآخری باب ہے اور اس میں ایک خواب بیان کیا گیا ہے جس میں انبیا علیہ السلام کی امتوں پر گزرنے والے حالات بیان ہوئے ہیں۔ اس میں حضور ﷺ کی بڑی واضح پیشین گوئی ہے کہ وہ صادق اور امین ہو ں گے اور اس طرح آئیں گے۔پھریہ بتایاگیاہے کہ حضور ﷺ کے ایک ہزار سال بعد پھرایک دفعہ یاجوج و ماجوج کی اقوام کی طرف دنیا کااقتدا ر منتقل ہوناشروع ہو جائے گا اور پھر انہی کے غلبے سے قیامت برپاہو جائے گی۔ یوحناعارف کے مکاشفے میں آخری حصہ خاص طور پر بہت پڑھنے کا ہے اور عیسائی علمابھی اس کو قابل اعتنا سمجھتے ہیں اور بیان بھی کرتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)