درود و سلام

جواب : میرے خیال میں مسلمانوں کی طرف سے پڑھا اور بھیجے جانے والا درود شریف حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچایا جاتا ہے جو آپ درود بھیجتے ہیں وہ حضور ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے اور آپ کے علم میں آتا ہے۔ یہ بعض روایات سے ثابت ہے میں کوئی سخت لفظ نہیں بولنا چاہتا لیکن دور جدید کے بعض متشدد محققین کو ہر اس بات کی تردید سے دلچسپی ہے جس کا تعلق مسلمانوں کی ذات رسالت ماب ﷺ سے محبت اور عقیدت سے ہو ۔انہوں نے تحقیق کر کے ان احادیث کو بھی کمزور قرار دیا ہے ممکن ہے کہ یہ احادیث واقعی کمزور ہوں لیکن میں سردست اس بحث میں نہیں جاتا اگر کمزور بھی ہوں تو اس طرح کی احادیث کے بارے میں ہمیشہ دو آراء ہو سکتی ہیں 
(۱) ایک بات میں ذرا وضاحت سے کہ دوں نکیر اسلام کی ایک اصطلاح ہے اس کا مطلب ہے منکر پر اظہار ناپسند ید گی کرنا ۔
منکر پر ناپسندیدگی کا حسب استطاعت اظہار کرنا مسلمان کی ذمہ داری ہے منکر وہ ہے جو قرآن پاک اور حدیث کی نص قطعی کی رو سے براکام ہو اور ناجائز ہو۔ معروف اور منکر دو اصطلاحات ہیں ۔ بدکاری منکر ہے ،چوری،فحاشی ، جھوٹ بولنا، جعل سازی اور توہین انبیامنکر ہیں ان چیزوں کے منکرات ہو نے میں کوئی اختلاف نہیں ان پر نکیر کرنا مسلمان کی ذمہ داری ہے ،من راٰی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ یہ جو مشہور حدیث ہے اس میں منکر سے یہی منکر مراد ہے ۔
لیکن جو چیزیں مختلف فیہ ہوں جہاں قرآن و حدیث کی تعبیر کا مسئلہ ہو اور اس تعبیر کی بنیاد احادیث یا قرآن کی آیات پر ہو اس رائے سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن وہ منکر نہیں ہو تی اس پر نکیر نہیں کرنی چاہیے اگر کو ئی اس طرح کی مختلف فیہ بات پر نکیر کرتا ہے تووہ شریعت کو نہیں سمجھا ہے میں یہ با ت پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ جو شخص مختلف فیہ چیزوں پر نکیر کرتا ہے وہ شریعت کو نہیں سمجھتا۔

()

جواب: عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہے لیکن ایک اشتراک کے باعث لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔‘ صلی’ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالی کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک اللہ تعالی خالق اور بے نیاز ہیں۔ لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماوی بھی ہیں۔ لہذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورہ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں ‘ہواللہ احد’ وہ یکتا ہے یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ‘اللہ الصمد’ اللہ سب کا سہارا ہے۔ یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہے لیکن لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔‘ صلی’ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالی کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک اللہ تعالی خالق اور بے نیاز ہیں۔ لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماوی بھی ہیں۔ لہذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورہ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں ‘ہواللہ احد’ وہ یکتا ہے یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ‘اللہ الصمد’ اللہ سب کا سہارا ہے۔ یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: درود ابراہیمی تو رسالت مآبﷺ کا سکھایا ہوا ہے ۔ اس کو آپ پڑھیں تو کیا کہنے ہیں ۔البتہ یہ الفاظ بھی اگر کوئی عقیدے کا فساد نہ ہوتو کوئی ممنوع نہیں ہیں۔ یعنی اگر آپ حاضر و ناضر کا عقیدہ نہیں رکھتے ، محض التفات اور محبت کی وجہ سے پڑھ رہے ہیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ نماز خالصتاً اللہ تعالٰی ہی کی طرف متوجہ ہونے کا عمل ہے، اِس میں محمد ﷺ کا ذکر ان کی طرف متوجہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ اِن کے لیے دعا مانگنے کی خاطر آتا ہے ۔اِس میں رخ خالصتاً خدا ہی کی طرف ہوتا ہے کیونکہ ہم خدا ہی سے ان کے لیے رحمت کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں اس میں حضور کی طرف متوجہ ہونے کا کوئی پہلو موجود نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: التحیات میں السلام علیک ایھا النبی کے الفاظ ہمیں سکھا دیے گئے ہیں۔ اسے آپ عام زندگی میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔یہ سلام بھیجنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اس میں حضور پر بھی سلام بھیجا گیا ہے اور سب اہل ایمان پر بھی یہ سلامتی کی دعائیں ہیں۔ اصل میں درود، سلام یہ الفاظ جب بولے جاتے ہیں تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ کوئی الگ چیزیں ہیں ۔نہیں، بلکہ سلام سلامتی کی دعاہے ، درود رحمت بھیجنے کی دعا ہے۔ اللہ کے حضور میں آپ درخواست کرتے ہیں تویہ دعائیں ہیں اور کوئی خاص عمل نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب تلاش کے بعد بھی ہمیں سوال میں مذکور: '' مجھ پر درود بھیجنے کے علاوہ تمام اعمال قبول یا مسترد ہو سکتے ہیں '' حدیث کے اثرات نہیں ملے؛ کیونکہ ہماری تلاش کے مطابق اس حدیث کو محدثین، مفسرین اور فقہائے کرام میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اس مفہوم کی کوئی اور حدیث بھی صحیح احادیث میں سے ہمیں نہیں ملی۔
غالب گمان یہی ہے کہ یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف جھوٹی منسوب کی گئی ہے، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ حدیث دورِ حاضر میں ہی گھڑی گئی ہو، ویسے بھی اس حدیث میں باطل اور غلط مفہوم پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ بات ٹھیک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام افضل ترین عبادات اور قرب الہی کے مؤثر ذرائع میں سے ایک ہے، لیکن پھر بھی یہ عمل دیگر تمام اعمال کی طرح قبولیت اور رد دونوں میں سے کسی ایک کا حامل ہے۔
 سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ بتلائیں کہ: ایک شخص جہاد میں شریک اس لیے ہوتا ہے کہ اسے اجر اور شہرت دونوں ملیں، تو اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ تو اس شخص نے یہی سوال تین بار دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ہر بار یہی فرماتے: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی بندے سے وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالصتاً اسی کے لیے کیا گیا ہو، اور رضائے الہی کے لیے ہو) سنن نسائی: (3140)
اس حدیث کو البانی نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنے والوں کے درود کو مسترد اس لیے کر دیا جاتا ہے کہ درود پڑھتے ہوئے ان کی نیت ریا کاری اور شہرت کی ہوتی ہے، یا پھر ان کے درود میں بدعتی الفاظ پائے جاتے ہیں، یا پھر عدم قبولیت کا کوئی اور سبب درود پڑھنے والے میں موجود ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ:إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ
 ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی متقین لوگوں سے قبول فرماتا ہے۔المائدۃ: 27

(شیخ محمد صالح المنجد)