تصوف اور صوفیا کے دعوے

ج: قدرت اللہ شہاب اصل میں ایک بڑے ادیب تھے اس لیے آپ نے ان کی چیزیں پڑھ لیں ورنہ ہمارے سب صوفیا ایسی ہی باتیں بیان کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں اسی طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہیں۔ جتنے بڑے بڑ ے صوفیا ہیں ان کی آپ کتابیں پڑھیں تو قدرت اللہ شہاب کی باتیں ان کے سامنے ہیچ نظر آئیں گی۔ان کو معراج ہوتی ہے ، وہ اللہ سے ملاقات کرتے ہیں ، راہ چلتی چیونٹیاں ان کو اپنی باتیں بیان کرتی ہیں ، وہ دعوی کرتے ہیں کہ اگر کسی پہاڑ کی کھائی میں بھی کوئی چیونٹی چل رہی ہو اور ان کے علم میں نہ ہو تو اس کامطلب ہے کہ ان کا علم ناقص ہے ۔دنیا کانظم ونسق وہ چلاتے ہیں ، تمام تکوینی امور ان کے ذریعے سے انجام پاتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب تو بیچارے اس معاملے میں طفل مکتب ہیں دوچار باتیں انہوں نے بیان کر دی ہیں آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے ہمارے ہاں کتابیں بھری پڑی ہیں۔

 اسی زمانے میں ایک مذہبی رہنماپیدا ہوئے، انہوں نے اپنے بارے میں بڑی کرامتیں اور اسی طرح کی چیزیں بیان کیں۔جب انہوں نے بیان کیں تو ان کے ساتھیوں نے بھی بیان کرنی شروع کر دیں ، اخباروں میں بھی بہت کچھ آنے لگ گیا ۔ اس پر ہمارے ایک دوست کہنے لگے کہ میری بڑی ذہنی الجھن حل ہو گئی۔وہ کہنے لگے کہ میں بزرگوں کے محیر العقل واقعات سن کر حیران ہوتا تھاکیسے ہوئے ہونگے ، معلوم ہواایسے ہی ہوئے ہونگے جیسے ہمارے اس صاحب کے ہوئے ہیں۔بس دنیا اسی طرح چل رہی ہے آپ بھی اس کودیکھتے رہیے ۔

ہدایت کا راستہ قرآن و سنت ہے ۔ اسی کو تھام کر رکھنااصل حل ہے ۔انسان کو چاہییے کہ وہ ہمیشہ بالکل صحیح علم اور پیغمبروں کی پہنچائی ہوئی ہدایت پر قائم رہنے کی کوشش میں لگا رہے ۔مزید یہ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی پر غور کرتے رہیے ان سے کوئی ایسا دعوی ثابت نہیں حالانکہ وہ دین کو ہم سب سے زیادہ سمجھنے اور عمل کرنے والے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)


جواب: سوال کے پہلے جزو کے جواب میں یہ ذہن نشین کرلیجیے کہ عربی زبان میں تزکیہ نفس کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک پاک صاف کرنا، دوسرے بڑھانا اور نشوونما دینا۔ اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انہی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے پس تزکیہ کا عمل دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفس انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم و عادات سے پاک صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعہ سے اس کو نشونما دیا جائے۔
اگر آپ قرآن مجید کو اس نقطہ نظر سے دیکھیں اور حدیث میں اور کچھ نہیں تو صرف مشکوۃ ہی پر اس خیال سے نظر ڈال لیں تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ کونسی ناپسندیدہ صفات ہیں جن کو اللہ اور رسولﷺ دور کرنا چاہتے ہیں اور وہ کونسی پسندیدہ صفات ہیں جن کو وہ افراد اور سوسائٹی میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔ نیز قرآن و حدیث کے مطالعہ ہی سے آپ کو ان تدابیر کی بھی پوری تفصیل معلوم ہوجائے گی جو اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور اس کے رسولﷺ نے استعمال کی ہے۔
اہل تصوف میں ایک مدت سے تزکیۂ نفس کا جو مفہوم رائج ہوگیا ہے اور اس کے جو طریقے عام طور پر ان میں چل پڑے ہیں وہ قرآن وسنت کی تعلیم سے بہت ہٹے ہوئے ہیں۔
دوسرے جزو کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تو عالم بالا کے معاملے میں صرف رسولﷺ کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انہوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دنیا میں عملاً وہ نظام حق قائم کردیں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشونما دینے والا ہو۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)