مصائب و مشکلات

 ج: اصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو تکلیف اور جو مصیبت بھی آتی ہے وہ ہمارے جرائم کی سزا بھی ہوسکتی ہے اور آزمائش بھی۔بعض اوقات ہماری کوتاہیوں کی سزا ہوتی ہے ،بعض موقعوں پر قدرت نے جو اسباب پیدا کیے ہیں ان کو استعمال نہ کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے ۔یہ دنیا عالم اسبا ب ہے ۔اس میں مادی اسباب کی اپنی اہمیت ہے اور اخلاقی اسباب کی اپنی۔ دونوں چیزیں سزا کاباعث بن سکتی ہیں۔ آپ نے حفظان صحت کے اصولوں کی پیروی نہیں کی ،کھانے پینے میں احتیاط نہیں برتی تو آخر کچھ نتیجہ تونکلے گا ۔ یہ چیزیں عالم اسباب میں اپنا کام کرتی ہیں۔ اسی طرح اخلاقی قوانین بھی کام کرتے ہیں ۔ آپ نے کوئی غلطی کی یااللہ تعالی کے ساتھ کوئی بدعہدی کی یا انسانوں کے ساتھ برامعاملہ کیا تو اللہ اس کی سزا بعض اوقات اس دنیا میں بھی دے دیتے ہیں ۔یہ سزا صرف اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرنے والے کو نہیں دی جاتی بلکہ سچے اہل ایمان کو بھی ان کو کسی غلطی سے نجات دلانے کے لیے دے دی جاتی ہے تاکہ وہ سزا بھگت کر اللہ کے ہاں پاک ہو کر چلے جائیں۔سزاکے پہلوکوبہرحال سامنے رکھنا چاہیے۔

 دوسری چیز یہ ہے کہ اللہ نے ایک عمومی امتحان برپا کر رکھا ہے ۔دنیا امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے اور اللہ اپنے بندوں کا امتحان لے رہا ہے۔ قرآن مجید میں اس نے واضح کر دیا ہے کہ یہ امتحان بیماریوں کے ذریعے ، جنگ و جدال کے ذریعے ’ غربت کے ذریعے ، مصیبت و مشکلات کے ذریعے لیتا ہوں۔ پھر اس امتحان کے دوسرے پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا ہے کہ بعض اوقات میں بڑی نعمتیں دے کر ،اقتدار دے کر ’ حسن دے کر ’ بے پناہ علم دے کر ’ بے پناہ دولت دے کر بھی امتحان کر تا ہوں تاکہ یہ معلوم ہو کہ بندہ اکڑتا ہے ،اس کو اپنا استحقاق سمجھتاہے یا میرا شکر گزار ہو کر رہتا ہے ۔ بعض اوقات اللہ تعالی کسی شخص کے اوپر کوئی مصیبت نازل کر کے ’ اسے دوسروں کے لیے عبرت بناتے ہیں یعنی دوسروں کے لیے گویا اس میں نصیحت کا سامان ہوتا ہے۔ بچوں پر، معصوم لوگوں پر اسی اصول کے تحت تکلیفیں آتی ہیں ’ اسکا ازالہ اللہ قیامت میں فرمائے گا۔لیکن دنیا میں لوگوں کے لیے یہ معاملہ کر دیتا ہے۔یہ بڑے بڑے پہلو ہیں۔

 اپنے احوال پر ہم کو ہر وقت غور کرتے رہنا چاہیے ۔عالم اسباب میں ہم نے جو غلطیاں کی ہوتی ہیں وہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کہاں ہم نے کیا غلطی کی ہے۔ ایسے ہی اخلاقی لحاظ سے جب انسان غلطی کرتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو بتا دیتا ہے کہ تم نے غلطی کی ہے۔ اگر آپ کواحساس ہو جائے کہ ایسا ہوا ہے تو اللہ سے معافی مانگنی چاہیے اور ہر تکلیف کو یہ خیال کر کے قبول کرلینا چاہیے کہ میرا پروردگار میرے لیے پاکیزگی کا ساما ن کر رہا ہے ۔

رہ گئی یہ بات کہ بظاہر یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ کیا معاملہ ہے تو کوئی بات نہیں ۔ اللہ کاامتحان اور آزمائش ہو سکتی ہے۔ اس کے معاملے میں وہی رویہ اختیار کیجیے جو ایک بندہ مومن کو کرنا چاہیے یعنی جب بند ہ مومن صبر کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کے سامنے ڈال دیتا ہے اور اس طرح کی مصیبت یاتکلیف میں یہ اطمینا ن دلا دیتا ہے کہ مالک میں نے اس کو قبول کر لیا ہے ۔تو اس رویے سے بہت کم عرصے میں تکلیف ختم ہوجاتی ہے ۔یعنی اگرانسان امتحان میں پورا اترنے کا حوصلہ کر لے تو اللہ اس کے لیے اسباب پیدا کر دیتے ہیں اور اگر اس کے باوجود کوئی معاملہ نہ ہورہا ہو تو پھر یہ ہے کہ اللہ ہماری تطہیر کر رہے ہوتے ہیں۔اس پر ایمان رکھ کر اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہو جانا چاہیے ۔

 دو اور دو چار کی طرح انسانی معاملا ت میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ تکلیف اس وجہ سے آگئی ہے اور وہ تکلیف اُس وجہ سے آگئی ہے۔ انسان خود ہی اس معاملے میں اپنا جائزہ لے کر بہتر رائے قائم کر سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج۔ یہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں بلکہ امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے۔ انصاف کے اصول کے اوپر آخرت قائم ہو گی ۔ اللہ تعالی نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں نے اس کو انصاف کے اصول پر قائم نہیں کیا ، اس میں ظلم بھی ہو گا، اس میں کسی کوعبرت بھی بنایاجائے گا یہ سب معاملات ہوں گے۔ یہ امتحان کی جگہ ہے آپ ا س میں کامیاب ہونگے تو آگے انصاف آپکا منتظر ہو گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:مصیبت رفع کرنے کی غرض سے اللہ تعالی سے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ افضل ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں آزمائشوں سے عافیت مانگنے کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (دشمن سے جنگ کی تمنا مت کرو، بلکہ اللہ تعالی سے عافیت مانگو) اس حدیث کو امام بخاری: (7237) اور مسلم: (1742) نے روایت کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مریض کی عیادت کرتے تو دعا فرمایا کرتے تھے: اللَّہُمَّ أَذْہِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ، فَأَنْتَ الشَّافِی، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا یعنی: یا اللہ! لوگوں کے پروردگار بیماری دور کر دے، اور شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے بنا کوئی شفا نہیں، یا اللہ! ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری نہ چھوڑے۔اس دعا کو ترمذی: (3565) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ایسے ہی ایک بار سیدنا عثمان بن ابو عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم میں درد کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا: (اپنے جسم کی درد والی جگہ پر ہاتھ رکھو اور تین بار کہو: بسم اللہ، بسم اللہ، بسم اللہ۔ پھر سات بار کہو: { أَعُوذُ بِاللَّہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ}یعنی: میں اللہ تعالی کی ذات اور قدرت کی پناہ چاہتا ہوں اس بیماری سے جو مجھ میں ہے یا جس کا مجھے خدشہ ہے۔) مسلم: (2202)پھر اللہ تعالی نے بھی تمام انبیائے کرام کے بارے میں بیان کیا کہ انہوں نے بھی اللہ تعالی سے تکلیف رفع کرنے کی دعائیں کی ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّی مَسَّنِی الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ]83[ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ ترجمہ: ایوب نے جب اپنے پروردگار کو پکارا کہ: مجھے تکلیف پہنچی ہے، اور تو ہی رحم کرنے والا ہے ]83[تو ہم نے ان کی دعا قبول کی۔ ]الأنبیاء:38، 84اسی طرح سیدنا یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:وَذَا النُّونِ إِذْ ذَہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنتُ مِنْ الظَّالِمِینَ ]87[ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنْ الْغَمِّ وَکَذَلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ ترجمہ: مچھلی والے کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیے اور خیال کیا کہ ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے! بالا آخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہو گیا۔ تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا اور ہم نے اسے غم سے نجات دی، اور اسی طرح ہم مومنین کو نجات دیتے ہیں۔ ]الأنبیاء:87، 88۔جب بھی کوئی پریشانی ہو تو دعا کی جائے اور بار بار کی جائے، اور اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مصیبت رفع کرنے کی دعا اور صبر کرنے میں کوئی تعارض ہے ہی نہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ہمیں دعا کرنے کا کہا کہ ہم اس کے سامنے پوری طرح گڑگڑا کر دعائیں کریں، ہمارا دعا کرنا بھی اللہ تعالی کی عبادت ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ: تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔]غافر:60[
اسی نے ہمیں صبر کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور صبر کرنے پر ڈھیروں اجر و ثواب کا وعدہ بھی کیا اور فرمایا:إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ترجمہ: یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔ ]غافر: 60 پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اللہ تعالی سے دعا مانگی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ صبر کرنے والے ہیں، اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر سب سے زیادہ راضی رہنے والے ہیں، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرنا صبر کے منافی نہیں ہے؛ کیونکہ صبر در حقیقت اپنے آپ کو تقدیری فیصلوں پر ناراضی سے بچانے کا نام ہے۔اس لیے اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ انسان دعا اور صبر دونوں عبادات بیک وقت کرے، بلکہ یہ افضل ترین کیفیت ہے؛ کیونکہ یہی کیفیت ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)