جواب: یہ معاملہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ گرد و پیش میں مذہب کی غلط تعبیریں ہجوم کر لیتی ہیں یعنی جب آپ غلط باتیں بیان کر دیتے ہیں اور گرد و پیش سے وہ آپ کے سامنے آتی ہیں تو اس کے نتیجے میں انسان ان چیزوں کا شکار ہو جاتا ہے۔انسان پر ماحول کے بے پناہ اثرات ہوتے ہیں اس کی وجہ سے اس کی فطر ت کی سادگی قائم نہیں رہتی۔ اگر اس کو آپ اس کی فطرت پر چھوڑ دیں اور پھر انبیا علیہم السلام کی تعلیم سادگی سے اس کے سامنے آئے تو وہ اسے قبول کرے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین پر عمل کرنے کے لیے کم سے کم ذمہ داری اللہ کے پیغمبر نے یہ بیان کی ہے کہ اپنے اخلاقی وجود کو درست کیجیے۔ نماز کا اہتمام کیجیے۔ روزوں کا مہینا آئے تو روزے رکھیے۔ اللہ توفیق دے تو حج کیجیے اور اپنے مال سے انفاق کیجیے۔اس ذمہ داری کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین دنیا میں مسائل ختم کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ کچھ مسائل کو پیدا کرنے کے لیے آیا ہے ، اس لیے دین سے مسائل کو حل کرنا یہ دور جدید کی بد مذاقی ہے ۔ ایک آدمی اچھی خاصی رشوت لے رہا ہوتا ہے ، کوٹھیاں کاریں ہوتی ہیں اور دین آتا ہے تو رشوت کو ممنوع قرار دے دیتا ہے تو دین مسائل پیدا کرتاہے۔ تاکہ ان مسائل کے ذریعے سے آپ کا امتحان ہو اور آپ اپنے رب کی اعلی نعمتیں جنت میں حاصل کریں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین اس لیے نہیں آیا کہ دنیا کے مسائل کو حل کرے۔دنیا کے مسائل کے حل کے لیے اللہ نے انسان کو بصیرت دی ہے وہ استعمال کرنی چاہیے ۔ دین اس لیے آیا ہے کہ جب آپ دنیا میں اپنے مسائل حل کررہے ہوں تواخلاقی تزکیہ کے بارے میں خبردار رہیں ، ایسا نہ ہو کہ آپ کے نفس پر کوئی آلائش آجائے کیونکہ قیامت میں آپ کو پاکیزہ نفس لیکر خدا کے حضور حاضر ہونا ہے ۔ دین علم اور عمل کی پاکیزگی کی دعوت ہے نہ کہ دنیا کے پیداواری اور غیر پیداواری مسائل کو حل کرنے کی دعوت ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ بالکل ٹھیک ہے کہ کوئی ایک بات ہی درست ہو گی ، دو باتیں تو بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں لیکن آپ اس کے مکلف نہیں کہ ضرور صحیح بات تک پہنچ جائیں ۔ہم صرف اس بات کے مکلف ہیں کہ دیانتداری سے صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کریں، اگر جان لی تو جس طرح حضورﷺ نے فرمایا کہ دہرا ثواب ہے لیکن اگر جاننے میں غلطی لگ گئی تو اکہرا ثواب ہے ، مواخذہ نہیں ہو گا
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایک صاحب علم کے لیے یہ بات معلوم کرنا مشکل نہیں ہوتا ۔ قرآن مجید ، رسول اللہﷺ کا اسوہ اور مختلف مواقع اور چیزوں کے بارے میں آپ کی تاکید کی روشنی میں یہ بات بآسانی معلوم ہوجاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج:ان کے حق میں دعا کیجیے ۔ دین کسی کی میراث نہیں نہ بتانے والے کی نہ سننے والے کی ۔سب کی مشترک میراث ہے۔ اگر دین بتانے والے نے اپنے رویے کے اندر تبدیلی پیدا نہیں کی تو وہ بھی آپ کی توجہ اور دعوت کا مستحق ہے ، نفرت کا نہیں۔اس کا رویہ جہنمی رویہ ہے اپنے بھائی کو جہنم سے بچانے کے لیے اس سے ہمدردی اور محبت رکھیے اور بات پہنچاتے رہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اسلام نے صرف انہیں چیزوں کو تبدیل کیا جو یہود و نصاری کے ماحول اور تمدن کے لحاظ سے خاص تھیں۔ ایک چیزہوتی ہے دین اور دین نام ہے ایمان اور اخلاق کا، یہ توتبدیل نہیں ہو سکتا ۔ یہ بات تبدیل نہیں ہوسکتی کہ اللہ ایک ہے نہ یہ بات کہ اللہ اپنی ہدایت پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجتا ہے۔نہ اس بات میں تبدیلی آ سکتی ہے کہ ہم سب کو ایک دن اس کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ۔ ایمان کے معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔اخلاقی معاملات بھی ابدی ہوتے ہیں ان میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جھوٹ جھوٹ ہے ، دیانت دیانت ہے ، بد دیانتی بددیانتی ہے۔ اس معاملے میں بھی کچھ نہیں بدلتا۔ اصل دین یہی ہے باقی قانون ہوتاہے یعنی اخلاقی تقاضوں کوکچھ قواعد وضوابط کا پابند کر دیا جاتا ہے اور یہ قواعد و ضوابط تمدن کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ہونے بھی چاہییں۔ قرآن نے یہ بتادیا ہے کہ یہود ونصاری کوتمدن کے لحاظ سے جوقانون دیا گیا تھا اس کی بعض چیزیں جو انہیں کیساتھ خاص تھیں ختم کر دی گئیں، بعض میں اصلاح کر دی گئی۔ اسلام چونکہ آخری شریعت ہے۔اوراگر یہودونصاری کی اصطلاح اختیار کرلی جائے توہم کہہ سکتے ہیں کہ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کے بعد یہ آخری عہد نامہ ہے۔ قرآن نے خود یہ بات بیان کر دی ہے کہ وہ پچھلے سارے کے سارے دین اور شریعت کا مہیمن ہے یعنی اس نے اس کو محفوظ بھی کر لیا ہے اس کی اصلاح بھی کر دی ہے اورجہاں کہیں کسی چیز میں تغیر کرناتھا وہ بھی کر دیا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)