جواب: اس معاملے میں صحیح چیز کو جاننا چاہیے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو پہلے سے طے ہوتی ہیں مثلاً مجھے کہاں پیدا ہونا تھا ، میری شکل و صورت کیا ہو گی، مجھے کیا صلاحیتیں دی جائیں گی۔ قدرت کے نظام نے مجھے ایک خاص ملک میں پیدا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے میرے لیے ایک شکل و صورت اور صلاحیتوں کی نوعیت منتخب کر لی۔ ان کے بارے میں بھی فیصلہ ہو گیا۔ اب اس کے بعد میرا اخلاقی وجود ہے اور ان صلاحیتوں کی نشو و نما دینے کے میدان ہیں، جن میں مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو الگ الگ سمجھ لینا چاہیے۔ اس کے لیے کسی فلسفی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ ہماری روزہ مرہ کی زندگی اور ہماری عقل عام اس کا فیصلہ کر رہی ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں، جو قدرت کے فیصلے کے نتیجے میں ہم کوملی ہیں اور کون سی چیزیں ہیں جن میں ہم کواختیار دیا گیا ہے۔ہم نے کبھی اپنے کسی ملازم کا اس بات پر احتساب نہیں کیا ہے کہ اس کی ناک بڑی اور کان چھوٹے کیوں ہیں۔ یہ چیزیں تو وہ قدرت کی طرف سے لے کر آیا ہے۔ لیکن جس وقت وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے، قاعدے کے خلاف معاملہ کرتا ہے، غبن کرتا ہے، خیانت کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، بددیانتی کرتا ہے، اس وقت ہم اس کا محاسبہ کرتے ہیں کیونکہ یہ اختیار کی چیز ہے۔ انسان اگر اپنے دل سے پوچھے تو دل ٹھیک فتویٰ دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کہاں وہ مجبور ہے اور کہاں مختار ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: دراصل اس بارے میں ایک غلط مقدمہ قائم کر لیا گیا ہے۔ وہ مقدمہ یہ ہے کہ مذہب ہماری دنیوی زندگی کی کامیابی کے لیے آیا ہے۔ جبکہ یہ بات مذہب کا موضوع ہی نہیں ہے۔ انسان اگر دنیا میں ترقی پانا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس کو علم حاصل کرنا ہے، اپنی طبعی زندگی کا مطالعہ کرنا ہے، اپنے اخلاقی وجود کو بہتر بنانا ہے، اپنے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے ۔ اگر وہ علم کے میدان میں آگے قدم بڑھاتا ہے اورمادے کو توانائی میں بدلنے کی کوئی نئی صورت دریافت کر لیتا ہے تو وہ آگے بڑھے گا، اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ہیں وہ چیزیں جن پر قوموں کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ مغرب کر لے یا مشرق کر لے، یکساں نتائج نکلیں گے۔
دنیا کی زندگی کے اندر تین چیزیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک چیز آپ کے مادی وسائل ہیں،دوسرے آپ کاعلم ہے، تیسرے آپ کی اخلاقی شخصیت ہے۔ مذہب کا موضوع آپ کی اخلاقی شخصیت ہے یعنی اس معاملے میں وہ اثر انداز ہو گا۔ آپ جو اخلاقیات اہل مغرب کے ہاں پاتے ہیں یہ دراصل سیدنا مسیح علیہ السلام کا اعجاز ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کا اخلاقی وجود مغرب کے ریشے ریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کو نکالا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کو آپ نام دیں، نہ دیں، وہ ان کی شخصیت ، ان کی نفسیات کا حصہ بن گیا ہوا ہے۔ یہ ہمدردی، محبت، انسانوں کے معاملے میں حساسیت، یہاں تک کہ جانوروں تک کے معاملے میں حساسیت اور ان کے حقوق کی پاس داری،یہ ساری کی ساری تعلیم درحقیقت سیدنا مسیح کی دی ہوئی تعلیم ہے۔ لیکن بعض اوقات جب انسان کے اندر ایک خاص طرح کا انحراف پیدا ہوتا ہے تو اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کے معاملے میں وہ دینے والوں کے لیے بھی ناشکری کا رویہ اختیار کر لیتا ہے۔
اس کے بعد بڑا مسئلہ موت کا ہے۔ اور یہ مسئلہ مغرب میں ختم نہیں ہوا ، بلکہ آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ مثال کے طور پر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آپ انھیں بتائیں کہ کھانے پینے میں احتیاط کرو، ورنہ تمھیں کوئی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، اس وقت کی زندگی گزارنے دو ‘بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست’(یعنی اے بابر عیش وعشرت میں زندگی بسر کرو یہ دنیا دوبارہ حاصل نہیں ہوگی)، جب بیماری آئے گی، دیکھا جائے گا۔اس طرح کے بے شمار لوگ ہوتے ہیں۔ مغرب بھی بحیثیت مجموعی مذہب کے ساتھ دراصل یہی معاملہ کر رہا ہے۔ وہاں موت کے مسئلے کو کچھ دیر کے لیے نظر انداز کر دیا گیا ہے، لیکن یہ اپنی پوری طاقت سے نمودار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں ہر شخص نے یہ فیصلہ کر لیا ہے۔ مغرب میں اس وقت بھی آپ کو ایسے کروڑوں لوگ ملیں گے جو غیر معمولی مذہبی وابستگی رکھتے ہیں۔ مذہب کے معاملے میں بڑے حساس ہیں۔ ان کے ہاں جو مذہبی روایت تھی، اس کے ساتھ دو آفات لاحق تھیں۔ ایک یہ کہ مذہب کے عقائد بدقسمتی سے صوفیانہ مظاہر کے زیر اثر بائبل سے بہت دور ہو چکے تھے۔ اس کو ہر عاقل نے رد کرنا ہی تھا، وہ رد ہو گئے۔ دوسری یہ کہ ان کے ہاں مذہب ایک Institution(ادارے) میں تبدیل ہو گیا تھا اور وہ پوپ کا Institution تھا ۔ اس کو ایک سیاسی اقتدار حاصل ہو گیا تھا۔ اس سے کچھ مفاسد پیدا ہوئے اور انھوں نے اس کے خلاف بغاوت پیدا کی۔ لہٰذا مغرب کے معاملے کو اس طرح دیکھنا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: مذہب تو یقینا اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اصل میں تو انسان کی خواہشات اوراس کے تعصبات یہ کام کرتے ہیں۔ انسان کے اندر چونکہ انحراف کی بڑی غیر معمولی صلاحیت ہے ، جس وجہ سے وہ بعض اوقات مذہب جیسی مقدس اور پاکیزہ چیز کو بھی اس کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔ جو چیز بھی اثر انگیز ہو گی اور انسانی شخصیت پر جس کی گرفت ہو گی، اس کو استعمال کر لیا جائے گا۔ چنانچہ ان نفرتوں کے لیے انسان نے قومی تعصبات کو بھی استعمال کیا ہے، انسان نے اپنے آدرشوں اور نصب العین کو بھی استعمال کیا ہے۔ پچھلی صدی کی ابتدا میں انسان نے یہ تصور دیا کہ ہم انسانوں کی بہتری کے لیے ایک ایسا نظام بنانا چاہتے ہیں، جس میں ملکیت کے ذرائع ختم کر دیے جائیں۔ اس میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ غریبوں کے مسئلے کو حل ہونا چاہیے، یہ بات تو بڑی اچھی ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ نے ایک نظام کا تصور قائم کیا اور پھر اس کو قائم کرنے کے لیے آپ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک صحیح چیز کا غلط استعمال ہے۔ اس طرح کا غلط استعمال مذہب کابھی ہو جاتا ہے۔ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم نے مذہب کے معاملے میں لوگوں کو educate کیا ہے؟ یقینا نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو اس طرح کے مسائل کبھی جنم نہ لیتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو اس بات کا بڑا غیر معمولی اہتمام کیا ہے کہ لوگ مذہب کو غلط استعمال نہ کر سکیں۔ لیکن ہم نے اس اہتمام سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔ اس لیے کہ آپ جتنا جی چاہیں اہتمام کر لیں، اعلیٰ سے اعلیٰ علم لوگوں کے سامنے رکھ دیں ، اگر آپ نے لوگوں تک اس کو پہنچانے کا اہتمام نہیں کیا تو اس کے نتیجے میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ طب کی اعلیٰ سے اعلیٰ کتابیں لکھ کے دے دیجیے اور ان کو لائبریری میں رکھ دیجیے،اگر آپ نے اپنی قوم کو educate کر کے اچھے ڈاکٹر پیدا کرنے کا اہتمام نہیں کیا تو عطائی راج کریں گے اور وہ لوگوں کی زندگی سے کھیلیں گے۔ یہی صورت حال مذہب میں ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین پر عمل کرنے کے لیے کم سے کم ذمہ داری اللہ کے پیغمبر نے یہ بیان کی ہے کہ اپنے اخلاقی وجود کو درست کیجیے۔ نماز کا اہتمام کیجیے۔ روزوں کا مہینا آئے تو روزے رکھیے۔ اللہ توفیق دے تو حج کیجیے اور اپنے مال سے انفاق کیجیے۔اس ذمہ داری کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)