جواب: دنیا میں جب بھی آپ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو اس کو انسانی زندگی کے تناظر میں دیکھنا پڑتاہے۔ مثال کے طور پر، اگریہ سوال کیا جائے کہ طب کیوں ہے؟تو یقینا اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ چونکہ انسان ہمیشہ ایک حالت میں نہیں رہتا، اس کو مختلف بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، اس لیے انسان کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ ان کا علاج دریافت کرے، بیماریوں کی نوعیت جاننے کی کوشش کرے، یہ جاننے کی کوشش کرے کہ بیماریاں کیوں لاحق ہوتی ہیں اور کیا وہ ان سے نجات حاصل کر سکتاہے۔یہی معاملہ تمام علوم وفنون کا ہے۔ اگر آپ تفریحات کی چیزوں کو الگ کر دیں تو جتنے بھی علوم وفنون ہیں وہ انسانی ضرورتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔اگر آپ جمالیات کے پہلو سے بھی فنون لطیفہ کا جائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احساس کی شدت سے بھی نوازا ہے اور صرف احساس کی شدت ہی سے نہیں نوازا، بلکہ وہ اس کے جمالیاتی اظہار سے تسکین بھی حاصل کرتا ہے۔ اس لیے فنون لطیفہ ، موسیقی، مصوری، شاعری اور اس طرح کی بہت سی چیزیں وجود میں آجاتی ہیں۔ انسان کو جس طرح اپنی صحت اور اپنے جمالیاتی احساسات کی تسکین کے مسائل درپیش ہیں، بالکل اسی طریقے سے موت بھی انسان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔انسان دنیا میں اپنی خواہشوں، امنگوں اور تمناؤں میں جی رہا ہوتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لے،وہ ارسطو اور افلاطون ہوتا ہے، زندگی کے منصوبے بناتا ہے،جوانی اور شباب کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے۔ یک بہ یک موت کا فرشتہ آتا ہے اور ہر چیز ختم ہو جاتی ہے۔موت کیوں آتی ہے ؟کیا اس سے انسانی زندگی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جاتا ہے؟ موت کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ ہم وہاں کس صورت حال سے دوچار ہو ں گے؟ مر کر مٹی ہو جائیں گے یا اٹھائے جائیں گے؟کوئی نئی زندگی شروع ہو گی یا یہی زندگی ہمارا خاتمہ ہے؟ اگر نئی زندگی شروع ہوگی تو اس کے اصول و قوانین کیا ہیں اور اس نئی زندگی میں جانے کے لیے کیا ہمیں اس دنیا میں کچھ کرنا ہے؟وہ زندگی بھی اسی طرح مختصر اور فانی ہے یاابدی ہے؟ اگر ابدی ہے تو اس کا اس کے ساتھ رشتہ کیا ہے؟ یہ وہ اہم ترین سوالات ہیں جن کا جواب فلسفے نے بھی دینے کی کوشش کی ہے،پھر ابتدا میں سائنس نے بھی دینے کی کوشش کی، لیکن اس وقت تک کی انسان کی کم و بیش پانچ ہزار سال کی علمی تاریخ بتاتی ہے کہ ان علوم میں سے کو ئی ایک چیز بھی ان سوالات کا معقول جواب نہیں دے سکی۔ اب تک کی دنیا میں ان سوالات کا سب سے زیادہ معقول ، فطری ، عقلی اور سائنٹیفک جواب صرف مذہب نے دیا ہے۔ اس لیے مذہب انسان کے سب سے بڑے مسئلے کا حل ہے اور اس کی ضرورت ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کے ہاں اوہام کی صورت میں جو مذہبی اعتقادات ہیں، یہ کیسے پیدا ہوئے؟ یہ سب کے سب انسان کی ضعیف الاعتقادی سے پیدا ہوئے ہیں ۔ کوئی بیماری آگئی، مصیبت آگئی ، انسان کے اوپر کوئی حادثہ ٹوٹ پڑا۔ اس موقع پر انسان کمزور ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی شخصیت کا توازن مجروح ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات سے مغلوب ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب اوہام پر مبنی مذاہب پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اصل میں مشرکانہ مذاہب ہیں۔ جس میں کسی دیوی دیوتا یا سورج چاند کومعبود بنا لیا جاتا ہے۔فطرت کی قوتوں کی پرستش کے جو احساسات اور جذبات انسان کے اندر پیدا ہوئے ہیں،یہ تو حید کے تصور سے انحراف کے نتیجے میں آئے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت آج سے چودہ ، پندرہ سو سال قبل ہوئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انھوں نے توحید کی دعوت دی۔ قرآن مجید بھی توحید کی دعوت دیتا ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ ضعیف الاعتقادی مشرکانہ عقائد کے پیدا کرنے کا باعث بن گئی۔ یہی معاملہ اس سے پہلے کا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے جس مذہب کی ابتدا ہوئی وہ اسلام تھا، توحید تھی ، ایک خدا پر ایمان تھا، لیکن بعد کے مراحل میں جب انسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے تھوڑے فاصلے پر ہوا تو اس کے نتیجے میں وہی ضعیف الاعتقادی غالب آگئی۔ اس وقت ہمارے پاس قرآن موجود ہے، احادیث موجود ہیں،توحید پر ایمان کی ایک عظیم روایت موجود ہے۔اس کے باوجود عام لوگ ہر طرح کے مشرکانہ اوہام میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
انبیا علیہم السلام کی بعثت اسی لیے ہوئی کہ انسان کے ان اعتقادات کے معاملے میں اسے متنبہ کیا جائے،وہم سے نکالا جائے، اسے توحید کا صحیح شعور دیا جائے اور اسے بلند کرکے پروردگار کے ساتھ متعلق کیا جائے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی اس پہلی ہدایت پر قائم رہ جاتاتو پے در پے پیغمبر بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ قرآن مجید نے یہی بات سورۂ بقرہ میں بیان کی ہے کہ: ‘کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً۔’( البقرہ ۲:۲۱۳) انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے توحید پر پیدا کیا ہے۔وہ ایک ہی گروہ تھے، ان کے دین میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس کے بعد وہ ان اوہام کا شکار ہوئے۔‘ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ’(البقرہ ۲:۲۱۳) پھر اللہ تعالیٰ نے نبیوں کا سلسلہ جاری کیاجو بشارت دینے اور خبر دار کرنے کے لیے آئے۔ قرآن بھی اپنے نزول کا مقصد یہی بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ دوسری جگہ بیان کیا: ‘لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ’ (حدید ۵۷:۲۵) تاکہ دین کے معاملے میں لوگ ٹھیک انصاف پر کھڑے ہو جائیں۔ یعنی انسان کو انحرافات سے نکال کر بالکل اس جگہ پر لے آیا جائے، جو انبیا علیہم السلام نے ان کے لیے متعین کی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ بات تعلیم کے ذریعے سے لوگوں کو بتانی چاہیے۔ ہمیں اپنی نئی نسلوں کو بتاناچاہیے، ان کے لیے اس کی تعلیم کے مواقع پیدا کرنے چاہییں۔ اعلیٰ درجے کے اہل علم کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے۔ ہم بہت بے چین ہو جاتے ہیں، اگر ہم کو معلوم ہو کہ ہمارے ہاں بیماریاں موجود ہیں، لیکن ان کے لیے اعلیٰ درجے کے ہسپتال نہیں ہیں، اعلیٰ درجے کے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ طب کی بہترین سہولتیں اپنے ملک میں فراہم کریں۔ لیکن افسوس کہ دین کے علم کے بارے میں ہم کبھی اتنے فکر مندنہیں ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ موت کا مسئلہ ہے۔ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ اس پر ہمیں سب سے زیادہ بے تابی ، سب سے زیادہ اضطراب ہونا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ معاملہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ گرد و پیش میں مذہب کی غلط تعبیریں ہجوم کر لیتی ہیں یعنی جب آپ غلط باتیں بیان کر دیتے ہیں اور گرد و پیش سے وہ آپ کے سامنے آتی ہیں تو اس کے نتیجے میں انسان ان چیزوں کا شکار ہو جاتا ہے۔انسان پر ماحول کے بے پناہ اثرات ہوتے ہیں اس کی وجہ سے اس کی فطر ت کی سادگی قائم نہیں رہتی۔ اگر اس کو آپ اس کی فطرت پر چھوڑ دیں اور پھر انبیا علیہم السلام کی تعلیم سادگی سے اس کے سامنے آئے تو وہ اسے قبول کرے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اس کے لیے کسی بڑے تعلیمی منصوبے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ ہم اس معاملے میں بیدار اور حساس ہو جائیں۔ آج کے دور میں تو یہ بہت آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے غیر معمولی ذرائع پیدا کر دیے ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ ایک کمرے (ٹی وی اسٹوڈیو)میں بیٹھے ہوں گے اور ایک دنیا آپ کی بات سن رہی ہو گی۔ پہلے آپ اگر تعلیم دینا چاہتے تھے تو ایسے غیر معمولی لوگ پیدا کرنے پڑتے تھے جو گاؤں گاؤں جا کے لوگوں کو بتا سکیں۔ دنیا میں اعلیٰ درجے کے معلم بہت کم ہوتے ہیں۔ اس میں بھی بڑی مشکلات تھیں۔ آج یہ ضرورتیں بھی اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی ہیں اور ایسے اسباب فراہم کر دیے ہیں کہ آپ ایک جگہ بیٹھ کر پوری دنیا کو تعلیم دے سکتے ہیں۔ اس وجہ سے تعلیم دینا کوئی مشکل کام نہیں ،اس کے لیے کسی بڑے منصوبے کی بھی ضرورت نہیں۔ صرف ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تنقید سے ڈرتے ہیں۔ یہ تنقید ہی ہے جو اصل میں قوموں کی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اگر آپ یہ صلاحیت نہیں رکھتے اور آپ نے یہ چیز پیدا نہیں کی یعنی آپ نے کچھ مقدس رکاوٹیں (Taboos )بنا دی ہیں کہ آپ فلاں چیز کو نہیں چھیڑ سکتے، فلاں پر بات نہیں کر سکتے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ صرف ذہنی اور فکری بونے پیدا کریں گے۔ آپ کے ہاں وہ لوگ جو آزادی سے بات کر سکیں، بات سمجھا سکیں، سوال کر سکیں، وہ ختم ہونے شروع ہو جائیں گے۔ دنیا کے اندر ترقی کرنے کا راستہ یہ ہے۔ طب میں بھی بہت غیر معمولی اوہام تھے۔ لوگ معلوم نہیں کس کس طریقے سے علاج کرتے تھے۔ تعویذ گنڈے تھے، عطائی تھے، لیکن سائنسی طریقۂ کار نے ان سب کو ختم کر دیا۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ یہ جو چیزیں آپ نے بیان کی ہیں اگر ان سب کو تعلیم کے عمل سے گزار دیا جائے تو جو صحیح مذہب اوراس کی اصل حقیقت ہے، وہ ان سب کو بالکل اسی طریقے سے نگل جائے گا، جس طرح قرآن میں بیان ہوا کہ عصائے موسوی ساحروں کی رسیوں کو نگل گیا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ بات دور جدید کے ماہرین نفسیات نے کہی تھی۔ لیکن اگر اس کے اندر اتر کر اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ بات منطقی استدلال کی میزان میں پوری نہیں اترتی۔ آپ کو خوف اسی وقت لاحق ہو گا جب آپ کو کچھ چیزیں عزیز و محبوب ہوں گی۔ انسان کو جو خوف لاحق ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت کے مواقع پہلے موجود تھے۔انسان کو زندگی عزیز تھی، زندگی کا رہن سہن عزیز تھا ، وہ اپنی دنیا سے محبت کرتا تھا۔ اسی لیے تو اسے یہ خوف لاحق ہوا کہ زلزلہ مجھ سے یہ سب کچھ چھین لیتاہے۔ طوفان آتا ہے او رمیری کٹیا کو بہا لے جاتاہے، آندھی آتی ہے اور میرا سب کچھ برباد کر جاتی ہے۔ یہ سب کچھ جو اس کے پاس ہے، اس سے اس کو جو محبت محسوس ہوئی یا ہونی چاہیے تھی وہی اصل میں خوف کا باعث بنی۔ خوف کبھی مقدم نہیں ہوتا۔انسان کا مقدم ترین جذبہ محبت کا جذبہ ہے۔ جب اس طرح کی تصویر کھینچی جاتی ہے تواس بات کو بھلا دیا جاتا ہے کہ کیا ہمیشہ زلزلے اور طوفان ہی آتے ہیں؟ انسان کی نگاہ ان پہاڑوں، دریاؤں، تلاطم خیز موجوں اورگرد و پیش کی عطربیز ہوا پر کبھی نہیں گئی؟انسان نے اپنے گرد وپیش کی خوب صورتی اور اپنے وجود کے حسن کو کبھی نہیں دیکھا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حسن و خوبی سے کوئی محبت پیدا نہ ہوئی ہو اور خوف کا جذبہ سب سے پہلے آ گیا ہو۔ اس لیے یہ بات کہ مذہب خوف سے پیدا ہوا ہے ، ٹھیک نہیں ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ رسوم اور روایات مذہب کا بنیادی مسئلہ نہیں ہے، یہ تو بڑی بعد کی چیزیں ہیں۔ مذہب کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ تمھیں ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے اور خدا کے حضور میں پیش ہونا ہے، اس پیشی کے بعد تمھاری ابدی زندگی کی ابتدا ہونی ہے۔ اس زندگی میں اللہ تعالیٰ نے جو فردوس آباد کر رکھی ہے، اس کے لیے وہ اس دنیا کے اندر لوگوں کا انتخاب کر رہا ہے۔ یہ انتخاب جس اصول پر ہو رہا ہے اس کو قرآن کی اصطلاح میں تزکیہ کہتے ہیں۔ یعنی دنیا کے اندر سے ، وہ لوگ جو اپنے نفس کا تزکیہ کر لیں، اپنے آپ کو پاکیزہ بنا لیں، ان کا انتخاب کیا جائے۔دراصل مذہب کا موضوع اخلاقی پاکیزگی ہے۔ اس معاملے میں تین چیزوں کو مذہب نے اپنے دائرے میں لیا ہے۔ ایک یہ کہ ہمارے بدن کو صاف ہونا چاہیے۔ دوسرے ہمارے کھانے پینے کی چیزوں کو پاکیزہ ہونا چاہیے اور تیسرے ہمارے اخلاق کو پاکیزہ ہونا چاہیے۔
یہ مسئلہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ لوگوں کو مذہب کی حقیقت سمجھائی نہیں گئی۔ ہم نے اپنی نئی نسلوں کو مذہب کے بارے میں کبھی تعلیم نہیں دی ۔ کبھی ان کے سوالات کا جواب نہیں دیا ۔ کبھی ان کو جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔ اس بات کا کبھی جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کہاں سے مذہب لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے، والدین اس کو تھوڑی بہت مذہبی معلومات فراہم کر دیتے ہیں۔ ایک قاری صاحب کے سپرد کرتے ہیں۔ قاری صاحب کچھ قرآن پڑھا دیتے ہیں، کچھ دعائیں یاد کرا دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ وہ بچہ مسجد میں چلا جائے گا اور وہاں سے کچھ باتیں سن لے گا۔ مذہب کی حقیقی تعلیم عملی اور عقلی استدلال کے ساتھ جس طرح دی جانی چاہیے ، وہ ہمارے بچوں کو کبھی دی ہی نہیں جاتی۔ اس وجہ سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)