جواب :مراقبہ لغت میں نگرانی اور نگہبانی کے معنی رکھتا ہے۔ اسی سے اس میں غور وفکر اور خدا کے تعلق کی نسبت سے اپنے ایمان وعمل کا جائزہ لینے کے معنی پیدا ہو گئے ہیں۔ مزید برآں انسان کے تصور کرنے کی صلاحیت پر ارتکاز کے لیے بھی مراقبے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ صوفیہ کے مقامات کی سیر غالباً اسی نوع کے مراقبے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ نہ دین میں اس طرح کے کسی عمل کی تعلیم دی گئی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:پندرہ علوم سے ہمارے ہاں متداول علوم مراد ہیں۔ مثلافہم کلام کے لحاظ سے: لغت، نحو، صرف، بلاغت، بیان اور اصول تفسیروغیرہ، حدیث کے ضمن میں رجال، روایت اور درایت کے اصول، فقہ کے حوالے سے اصول فقہ اور خود فقہ، علوم عقلیہ میں فلسفہ، منطق اور علم کلام اور تاریخ میں سیرت اور اسلامی تاریخ ۔اسی طرح خود قرآن مجید اور سنت اور حدیث سے براہ راست واقفیت وغیرہ۔ میں نے آپ کو ذہن میں موجود معلومات کو سامنے رکھ کر ایک اصولی جواب دیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس موضوع پر لکھی کتابوں میں اس تفصیل میں کچھ فرق ہو۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے ایک رواج کو نا پسند فرمایا تھا۔ کچھ لوگ طمطراق اور طنطنہ ظاہر کرنے کے لیے عربوں میں رائج لباس یعنی تہبند کو اتنا نیچے باندھتے تھے کہ وہ چلتے وقت زمین پر گھسٹتا رہے۔ ظاہر ہے، یہ گھمنڈ ہے جسے ہمارے دین میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ہماری امت میں دو نقطہ نظر رائج ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق علت کو اہمیت دی جائے گی اور لباس کی ہر وہ ہیئت ناپسندیدہ قرار دی جائے گی جس کا محرک تکبر ہو۔ چنانچہ ٹخنوں کا ننگا ہونایا ڈھکا ہونا اس معاملے میں غیر اہم ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کے معاملے میں ٹخنوں کو ننگا رکھنے کا حکم دیا تھا۔ لہذا کوئی بھی لباس ہو ٹخنے ہر حال میں ننگے رکھے جائیں گے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل اہمیت علت کی ہے۔ اگر کسی لباس میں نیچے رکھنے سے تکبر کی علت نہیں ہے تو ٹخنے ننگے رکھنا ضروری نہیں رہتا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:عام طور پر ایک روایت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر غلطی ہو تو ایک اجر ہے اور اگر درست ہو تو دہرا اجر ہے۔ اس روایت کے بارے میں کچھ قیل وقال ہے۔ لیکن قرآن میں اجر کے مرتب ہونے کے جو اصول بیان ہوئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات ٹھیک لگتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس غلطی پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے جس میں آدمی کا اپنا ارادہ اور نیت شامل نہیں ہے۔مجتہد یا قاضی چونکہ صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ غلطی کے باوجود اسے اجر ملنا سمجھ میں آتا ہے۔ درست فیصلے یا نتیجے پر دہرا اجر درحقیقت اس محنت کا عوض ہے جو اس نے صحیح بات تک پہنچنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرکے کی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:صحابہ کی دین میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ ہمارے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جماعت ِصحابہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو دین کے منتقل ہونے کا ذریعہ بنی ہے۔ چنانچہ وہ دین جو ان کے اجماع سے امت کو منتقل ہوا ہے وہ امت کے لیے واجب الاتباع ہے۔ اس کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ باقی رہیں ان کی آراء یا ان کے ذریعے سے امت کو ملنے والی اخبار احاد تو ان کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے لیکن ان کو قبول کرنے کے لیے انھیں روایت درایت اور فہم کے اصولوں پر پرکھا جائے گا۔ اگر درست ہوں گی تو مان لی جائیں گی ورنہ دوسری رائے قائم کرنے کا رستہ اختیار کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ امت کے ائمہ نے اس باب میں یہی راستہ اختیار کیا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: ٹائی کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ محض تزئین کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک مذہبی علامت کی ہے اور یہ صلیب کا نشان ہے۔ اولاً تو اسی بات کو ثابت کرنے میں مسائل ہیں۔ ثانیاًاب تمام دنیا میں کوٹ پتلون اور ٹائی کا رواج ہے اور اگر اس کا کوئی مذہبی پس منظر تھا بھی تو اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ اس کو ایک تزئینی لباس کے طور پر ہی پہنا جاتا ہے۔ ٹائی پہننے میں اصولاً کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:دین میں اصل اہمیت صبر کی ہے۔ صبر سے مراد ثابت قدمی اور استقامت ہے۔ دین پر عمل، سوسائٹی کے حوالے سے ایک مسلمان پر دین کی رو سے عائد ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے استقامت یعنی صبر کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور اسی پردین و دنیا کے اعلی نتائج منحصر ہیں۔ صبر محض ایک نئی اصطلاح ہے۔ غالباً اس سے مراد کسی طرح کے اقدام سے گریز ہے۔ یہ اصطلاح کسی حکمت عملی کے لیے تو شاید ناگزیر ہو لیکن دینی زندگی کے لیے یہ ایک بے معنی بات ہے۔ دین کا ہر حکم دین میں بیان کی گئی شرائط کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔ کسی خود ساختہ حکمت کو دینی قرار دینا کسی طرح موزوں نہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:بنیادی اختلاف ایک ہی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسی ہستیوں کو ماننا جو براہ راست اللہ تعالی سے رہنمائی پاتی ہوں اور خطا سے محفوظ ہوں اور دین میں اصل انحصار انھی پر ہو۔باقی دینی اختلافات بالعموم اسی فرع سے پھوٹے ہوئے ہیں۔ باقی رہا دور اول کا سیاسی جھگڑا تو اس کے دینی اور سیاسی اثرات بھی اہم ہیں لیکن اس معاملے میں امت کے بہت سے لوگ اہل تشیع کے ہمنوا ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف کرنا ایمان کے منافی ہے۔ البتہ اہل علم اس بات میں اختلاف کرتے ہیں کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے پیش کی جارہی ہے وہ اپنی نسبت میں درست ہے یا نہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: ولایت کوئی منصب نہیں ہے۔ لہذا اس کے لیے دلیل کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ اگر کسی شخص سے اس طرح کا کوئی واقعہ صادر ہوتا ہے تو یہ ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مقبول بارگاہ ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات میں افسانہ زیادہ اور حقیقت کم ہی ہوتی ہے۔ باقی رہا نبوت کا معاملہ تو اسے کئی طرح کے دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے ۔ معجزہ ان میں سے ایک ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: اذان کے بعد کی دعا میں دونوں صورتیں درست ہیں۔ میرے علم کی حد تک اس میں مسجد کے اندر یا باہر کا فرق بھی نہیں ہے۔ عام طور پر یہ دعا ہاتھ اٹھائے بغیر مانگی جاتی ہے۔اذان کا جواب دینے میں اگر آپ چاہیں تو ہر اذان کا جواب دیں اور اگر ایک اذان کا جواب دیں تو اس میں بھی حرج نہیں۔ اسی طرح چاہیں تو ایک اذان کے بعد دعا مانگیں اور چاہیں تو ہر اذان کے بعد دعا کریں۔ یہ امور تطوع ہیں ۔
(مولانا طالب محسن)
آپ کے سوالات کے جواب حاضر ہیں۔
بنیادی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے جملے کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک قسم کی ہے۔یہ ایک ناموزوں اور حق تلفی پر مبنی قسم ہے ۔اسے توڑنا لازم ہے۔ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ان صاحب کو بس یہ کرنا ہے کہ یہ قسم کا کفارہ ادا کردیں اور اپنی سسرال میں نارمل زندگی گزاریں۔ قسم کا کفارہ یہ ہے:‘‘قسم کھانے والا دس مسکینوں کو اس معیار کا کھانا کھلائے جو وہ عام طور پر اپنے اہل وعیال کو کھلاتا ہے، یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے یا غلام آزاد کرے۔ان میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو اسے تین دن کے روزے رکھنا ہوں گے۔’’
(مولانا طالب محسن)
جواب: اس دنیا میں ہم انسانوں کے بس میں جو کچھ ہے وہ اسباب کے تحت ہے۔ یہ اسباب ضروری نہیں کہ معروف معنوں میں مادی ہوں۔ لیکن ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ کسی علم پر مبنی ہوتا ہے خواہ وہ علم مادے کے اندر چھپے خواص کا ہو یا نفسیات میں ودیعت کی گئی صلاحیتوں کا ہو اور خواہ اسے قواعد وضوابط مرتب کرکے باقاعدہ علم کی شکل دے دی گئی ہو اور خواہ یہ تجربات ومجربات کی صورت میں سینہ بہ سینہ چل رہا ہو۔ ہم اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند ہیں اور اس سے نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ البتہ اللہ تعالی کی طرف سے خارق عادت معاملات ہوتے رہتے ہیں ان کی کسی فرد کی طرف نسبت کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ قرآن مجید میں شہدا کے لیے ایک نوع کی زندگی کی خبر دی گئی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے اشارات سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرنے والوں کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا سماع کا نقطہ نظر کسی محکم بنیاد پر قائم نہیں ہے۔وسیلہ کا عربی میں مطلب قرب ہے۔ اردو کے لفظ وسیلہ کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اللہ تعالی سے عبد ومعبود اور دعاومناجات کے تعلق کے لیے کسی طرح کے واسطے کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالی کے سوا کسی اور سے ماسوائے اسباب استمداد اور استغاثہ جائز نہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: اس دنیا میں ہم انسانوں کے بس میں جو کچھ ہے وہ اسباب کے تحت ہے۔ یہ اسباب ضروری نہیں کہ معروف معنوں میں مادی ہوں۔ لیکن ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ کسی علم پر مبنی ہوتا ہے خواہ وہ علم مادے کے اندر چھپے خواص کا ہو یا نفسیات میں ودیعت کی گئی صلاحیتوں کا ہو اور خواہ اسے قواعد وضوابط مرتب کرکے باقاعدہ علم کی شکل دے دی گئی ہو اور خواہ یہ تجربات ومجربات کی صورت میں سینہ بہ سینہ چل رہا ہو۔ ہم اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند ہیں اور اس سے نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ البتہ اللہ تعالی کی طرف سے خارق عادت معاملات ہوتے رہتے ہیں ان کی کسی فرد کی طرف نسبت کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ قرآن مجید میں شہدا کے لیے ایک نوع کی زندگی کی خبر دی گئی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے اشارات سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرنے والوں کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا سماع کا نقطہ نظر کسی محکم بنیاد پر قائم نہیں ہے۔وسیلہ کا عربی میں مطلب قرب ہے۔ اردو کے لفظ وسیلہ کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اللہ تعالی سے عبد ومعبود اور دعاومناجات کے تعلق کے لیے کسی طرح کے واسطے کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالی کے سوا کسی اور سے ماسوائے اسباب استمداد اور استغاثہ جائز نہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ سحر ایک فن ہے جو سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ اس کا دائرہ عمل کیا ہے ؟ اس ضمن میں قرآن وحدیث سے کوئی بات طے کرنا موزوں نہیں ۔ اس لیے کہ ان میں اس کا تذکرہ کچھ واقعات کے حوالے سے آیا ہے ۔ براہ راست اس فن کو موضوع نہیں بنایا گیا۔یہ سرتاسر تجربے پر موقوف ہے۔اس فن کے لوگ اسے باقاعدہ علم کی شکل نہیں دے سکے لہذا اس کے نتائج کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ البتہ ہمیں قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس فن کی ایک صورت غالباً جسے کالا علم کہا جاتا ہے کفر ہے۔ اور دوسری صورت بھی ایک فتنہ ہے۔ لہذا ان سے گریز ہی بہتر ہے۔ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں پڑھ کر پھونکنے میں حرج نہیں اور اگر ضرورت ہو تو لکھ کر تعویز بھی بنایا جا سکتا ہے۔لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ عمل کرنے والا اپنے لیے خود کرے ۔پڑھ کر اپنے اوپر پھونکنے کاعمل حضور سے روایات میں بیان ہوا ہے لیکن تعویزکرنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
(مولانا طالب محسن)