جواب: اس دنیا میں ہم انسانوں کے بس میں جو کچھ ہے وہ اسباب کے تحت ہے۔ یہ اسباب ضروری نہیں کہ معروف معنوں میں مادی ہوں۔ لیکن ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ کسی علم پر مبنی ہوتا ہے خواہ وہ علم مادے کے اندر چھپے خواص کا ہو یا نفسیات میں ودیعت کی گئی صلاحیتوں کا ہو اور خواہ اسے قواعد وضوابط مرتب کرکے باقاعدہ علم کی شکل دے دی گئی ہو اور خواہ یہ تجربات ومجربات کی صورت میں سینہ بہ سینہ چل رہا ہو۔ ہم اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند ہیں اور اس سے نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ البتہ اللہ تعالی کی طرف سے خارق عادت معاملات ہوتے رہتے ہیں ان کی کسی فرد کی طرف نسبت کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ قرآن مجید میں شہدا کے لیے ایک نوع کی زندگی کی خبر دی گئی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے اشارات سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرنے والوں کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا سماع کا نقطہ نظر کسی محکم بنیاد پر قائم نہیں ہے۔وسیلہ کا عربی میں مطلب قرب ہے۔ اردو کے لفظ وسیلہ کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اللہ تعالی سے عبد ومعبود اور دعاومناجات کے تعلق کے لیے کسی طرح کے واسطے کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالی کے سوا کسی اور سے ماسوائے اسباب استمداد اور استغاثہ جائز نہیں۔
(مولانا طالب محسن)