جون 2007
جب کوئی کلی صحن گلستان میں کھلی ہے شبنم میری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے جس کی سر افلاک بڑی دھوم مچی ہے آشفتہ سری ہے ، مری آشفتہ سری ہے اپنی تو اجالوں کو ترستی ہیں نگاہیں سورج کہاں نکلا ہے ، کہا ں صبح ہو ئی ہے ...
چوب صحرا بھی وہاں، رشک ثمر کہلائے ہم خزاں بخت شجر ہو کے حجر کہلائے ہم تہ خاک کیے ،جاں کاعرق، ان کے لیے اور پس راہ وفا، گرد سفر ، کہلائے ان کی پوروں میں ستارے بھی ہیں، انگارے بھی وہ صدف جسم ہوئے ، آتش تر، کہلائے ...
چراغ زندگی ہو گا فروزاں، ہم نہیں ہو ں گے چمن میں آئے گی فصل بہاراں، ہم نہیں ہو ں گے جیئں گے جو، وہ دیکھیں گے بہاریں زلف جاناں کی سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراں، ہم نہیں ہوں گے جوانو اب تمہارے ہاتھ میں تقدیر عالم ہے ت...
دل میں کیسی یہ بے کلی اتری جسم و جاں میں فسردگی اتری قتل سورج کا ہو گیا شاید ! صبح دم کیوں یہ تیرگی اتری حوصلہ ہے نہ ولولہ باقی کس خرابے میں زندگی اتری رات تو انتظار میں کاٹی دن ہوا پر نہ روشنی اتری ...
مئی 2006
قوم کے جب نظریات بدل جاتے ہیں دیکھتے دیکھتے حالات بدل جاتے ہیں بزدلی شکوہ حالات سکھا دیتی ہے دل میں ہمت ہو تو حالات بدل جاتے ہیں کون کہتا ہے انہیں عہد ِوفا یاد نہیں ذکر چھڑتاہے توکیوں بات بدل جاتے ہیں مجھ کوپ...
جون 2006
یہ اضطراب کا ماحول چار سُو کیا ہے کوئی بتائے کہ کِس کِس کی آرزو کیا ہے سُلگ رہی ہے مرے گھر کے گوشے گوشے میں یہ آگ کیا ہے، بپا شور ہاؤ ہو کیا ہے گلی گلی میں جنوں پوچھتا ہے لوگوں سے خرد کے جسم سے بہتا ہوا لہو کیا ہے ...
دسمبر 2006
تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے دیکھ کر پرندوں کو ، باندھنا نشانوں کا ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے تم ابھی نئے ہو ناں ، اس لیے پریشاں ہو آسماں کی جانب اس طرح سے مت دیکھو ...
جنوری 2005
آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے’ پسِ دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی آنکھ جھپکی بھی نہیں’ ہاتھ سے پتوار گرے مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سایہ دیوار پہ دیو...
تجھ کو پانے کی تمنا نے سمجھائے رستے جب بھی الجھے ہیں مرے ذوقِ سفر سے رستے منزلیں عزمِ مصمّم پہ فدا ہوتی ہیں میں بھٹکتا تو مجھے راہ دکھاتے رستے سادگی دیکھ کے منزل کے تمنّائی کی قریہ قریہ لیے پھرتے رہے اندھے رستے ...
مارچ 2005
پیاس بخشی ہے تو پھر اجر بھی کھل کر دینا ابر مانگے مری دھرتی تو سمندر دینا اپنی اوقات سے بڑھنا مجھے گم کر دے گا مجھ کو سایہ بھی مرے قد کے برابر دینا یہ سخاوت مرے شجرے میں لکھی ہے پہلے اپنے دشمن کو دعائیں تہِ خنجر دینا...! دیک...
ستمبر 2005
ہم نے مانا کہ بڑے ہیں کام کے یہ مشورے کس طرح مانیں مگر دیوانگی میں مشورے میری حالت دیکھ کے اکثر تو آگے بڑھ گئے رک گئے کچھ دیر وہ ، جو دیتے رہے مشورے دم نکلنے میں ابھی کچھ دیر تھی، لیکن اُدھر وارثوں میں ہو رہے تھے باہ...
دسمبر 2005
بزمِ حبیباں میں سستی سے جانامشکل ہو جاتاہے جا پہنچوں توسچ کہتاہوں آنا مشکل ہو جاتاہے الجھی الجھی اور پیچیدہ سی باتوں کاذکر ہی کیا سادہ سادہ باتوں کا پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے کیسی کیسی خیال کی لہریں دل دریامیں اٹھتی ہیں ...