غزل


مضامین

  سوچاں ، سوچ سوچ کے سوچاں سوچاں وچ ، کنج وڑیاں سوچاں سوچاں ساہنوں پڑھنے پایا خبرے کتھے پڑھیاں سوچاں کھا جاندی اے سوچ نکی جئی انج تے بڑیاں بڑیاں سوچاں ذوالفقار علی مسافر اوکاڑوی


  بنتے ہیں ہر سوال کے پیکر، نئے نئے  کھلتے ہیں پھول ذہن میں اکثر، نئے نئے    کس نے سیاہ رات کو تارے عطا کیے  پھر ان میں رکھ دیے کئی چکر، نئے نئے    کرتا ہے کون پھول کو خوشبو سے ہم کنار رکھتا ہے کون آنکھ میں منظر، نئے نئے  ...


خزاں چمن سے چلی بھی گئی تو کیا ہو گا پھر اک فریب بہاراں کا سلسلہ ہوگا   تجھے خبر ہے نسیم بہار کیا ہو گا گلوں کی آگ میں کل باغ جل رہا ہو گا   ابھی شروعِ سفر ہے ابھی کہاں منزل نگاہِ شوق نے دھوکا کوئی دیا ہو گا   فرازِ دار سے ابھرے صدا...


خزاں چمن سے چلی بھی گئی تو کیا ہوگا پھر اک فریب بہاراں کا سلسلہ ہوگا   تجھے خبر ہے نسیم بہار کیا ہوگا گلوں کی آگ میں کل باغ جل رہا ہوگا   ابھی شروعِ سفر ہے ابھی کہاں منزل نگاہِ شوق نے دھوکا کوئی دیا ہوگا   فرازِ دار سے ابھرے صدا تو ...


  خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی   نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی   وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہربان کیا کیا بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی...


  آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے ،پس دیوار گرے   مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سایہ دیوار پہ دیوار گرے   کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھر تی تھی کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار...


  تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چنی خود اندھیری فضاؤں میں پلتے رہے   تم نے دنیاکے خوابوں کی جنت بنی خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے    تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سنی اور خود عمر بھر خوں اگلتے رہے   جنگ کی آگ دنیا میں ج...


  مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے    محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہو ں میں شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے   قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں اسکو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے ...


  طبیعت کواس انداز سفر سے آشنا رکھنا ہوائے تندمیں چلنا ہتھیلی پر دیا رکھنا   ہمیں تو جب بھی ملتے ہیں، بس ایسے دوست ملتے ہیں ہمار ا دوست بننا، دشمنوں سے رابطہ رکھنا   پہاڑوں کو اٹھا لینا بہت آساں ہے لیکن بہت دشوار ہے ہونٹوں ...


  جو بھی گھر سے جاتا ہے  یہ کہہ کر ہی جاتا ہے   ‘‘دیکھو مجھ کو بھول نہ جانا میں پھر لوٹ کے آؤں گا   دل کو اچھے لگنے والے لاکھوں تحفے لاؤں گا   نئے نئے لوگوں کی باتیں آکر تمہیں سناؤں گا’’   لیکن آنکھیں تھک جات...


  جیتے جی میرے،ہر اک مجھ پہ ہی تنقید کرے اور مر جاؤں تو دنیا میری تقلید کرے   میں تو کہتا ہوں کہ تم ابر کرم ہو لیکن کاش صحرا میرے الفاظ کی تائید کرے   جب ہر اک بات یہاں تشنہ تکمیل رہے  پھر کرے کوئی تو کیا جرأت تمہید کرے ...


  جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے  اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے    میخانے کی توہین ہے ،رندوں کی ہتک ہے کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے    ہے خوئے ایازی ہی سزاوار ملامت محمود کو کیوں طعنہ اکرام دیا جائے    ...