خزاں چمن سے چلی بھی گئی تو کیا ہو گا
پھر اک فریب بہاراں کا سلسلہ ہوگا
تجھے خبر ہے نسیم بہار کیا ہو گا
گلوں کی آگ میں کل باغ جل رہا ہو گا
ابھی شروعِ سفر ہے ابھی کہاں منزل
نگاہِ شوق نے دھوکا کوئی دیا ہو گا
فرازِ دار سے ابھرے صدا تو بات بنے
گھٹی گھٹی سی کراہوں سے کیا بھلا ہو گا
عنایتؔ آج چلی ہے جو درد کی پروائی
پھر آج زخم تمنائے جاں ہرا ہو گا