غزل

مصنف : عبیداللہ علیم

سلسلہ : غزل

شمارہ : مارچ 2007

 

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی
 
نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
 
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہربان کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی
 
عذاب جن کا تبسم، ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ہیں پس جاں یہ صورتیں کیسی
 
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکائتیں کیسی
 
جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ہے 
میں سنگ راہ ہوں مجھ پر عنائتیں کیسی
 
نہ صاحبان جنوں ہیں نہ اہل کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی
 
یہ دور بے ہنراں ہے ، بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی ، کرامتیں کیسی