حمدیہ غزل

مصنف : امجد اسلام امجدؔ

سلسلہ : غزل

شمارہ : جنوری 2008

 

بنتے ہیں ہر سوال کے پیکر، نئے نئے 
کھلتے ہیں پھول ذہن میں اکثر، نئے نئے 
 
کس نے سیاہ رات کو تارے عطا کیے 
پھر ان میں رکھ دیے کئی چکر، نئے نئے 
 
کرتا ہے کون پھول کو خوشبو سے ہم کنار
رکھتا ہے کون آنکھ میں منظر، نئے نئے 
 
کس قاعدے سے پھیلتی جاتی ہے کائنات
ذروں سے نکلے آتے ہیں جوہر ،نئے نئے 
 
اک کہکشاں کے بعد ہے اک اور کہکشاں
پھر ان کے بعد بھی مہ واختر، نئے نئے 
 
نہ مختتم سی ریت میں ،برفوں کے بیچ بھی
رکھتا ہے کون زیست کے مظہر، نئے نئے 
 
آنکھوں سے دور اجنبی پرواز کے لیے 
دیتا ہے کون ذہن کو شہپر، نئے نئے 
 
کیونکر یہ شہر لاکھوں برس پانیوں میں تھے؟
کیسے بنے زمیں پہ سمندر، نئے نئے 
 
بنتے ہیں رشتے کس طرح چیزوں کے درمیاں
حد شعور سے کہیں بہر، نئے نئے 
 
روز ازل سے ہیں وہی گنتی کے چند رنگ
بنتے ہیں جن سے ان گنت، منظر، نئے نئے 

 

 

ق
ہر چیز کہہ رہی ہے کوئی اور ہے یہاں
جس کی رضا کے فضل ہیں ہم پر ، نئے نئے 
 
امجد یہ سب یقیں بھی ، سارے گماں بھی
سب ہیں اسی جمال کے ، مظہر ،نئے نئے 
امجد اسلام امجد
 
غزل
ہر دم دنیا کے ہنگامے گھیرے رکھتے تھے 
جب سے تیر ے دھیا ن لگے ہیں، فرصت رہتی ہے
 
شہر سخن میں ایسا کچھ کر ، عزت بن جائے
سب کچھ مٹی ہوجاتا ہے ، عزت رہتی ہے 
 
سائے لزرتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں
رہتے تھے انسان جہاں اب وحشت رہتی ہے
 
چاپ کوئی جو مڑ جاتی ہے دل دروازے سے 
کیا کیاہم کو رات گئے تک وحشت رہتی ہے 
 
دھیان میں میلہ سا لگتا ہے بیتی یادوں کا
اکثر اس کے غم سے دل کی صحبت رہتی ہے 
 
پھولوں کی تختی پہ جیسے رنگوں کی تحریر
لوح سخن پہ ایسے امجد شہرت رہتی ہے
امجداسلام امجد