ستمبر 2004
کسے خبر تھی کہ آنے والی رتوں کاہر پل اداس ہوگا دلوں میں شعلے مگر بدن پرمنافقت کا لباس ہوگا ہوس شرارے خلوص محلوں کو راکھ کرنے پہ تل گئے ہیں نہ بچ سکے گا کوئی سلامت مگر جو آدم شناس ہوگا وہ ابرو باراں کی وحشتیں ہوں کہ ...
نومبر 2004
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِبہاری’ راہ لگ اپنی تجھے اٹھکیلیاں سُوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں تصور عرش پر ہے ’ اور سر ہے پائے ساقی پر غرض کچھ ...
موسموں کی گرد ہونٹوں پرجمی رہ جائے گی لب ہلے بھی توصداؤں کی کمی رہ جائے گی رفتہ رفتہ ماند پڑ جائے گی آنکھوں کی چمک زرد رخساروں پہ اشکوں کی نمی رہ جائے گی پھول زلفوں میں سجیں یا قبر کی زینت بنیں شاخساروں پر خزاں کی برہ...
وہ تو خوشبو ہے ’ ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے ’ پھول کدھر جائے گا ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا ...
ماؤں کو نہ تڑپاؤ ظالمو!ذرا ٹھہرو بجلیاں گراؤ تم۔جب کسی نشیمن پر گولیاں چلاؤ تم۔جب کسی کے سینے پر اتناغور کر لینا ہر جوان بیٹے کی۔ ایک ماں بھی ہوتی ہے مامتا بھر ی آنکھیں۔اس کے لوٹ آنے کی ۔منتظر بھی رہتی ہیں گولیاں چلاؤ تم۔...
دسمبر 2004
دوسالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں پچھلے سال بھی ایسی ہی اک سرد دسمبر کی شب تھی جب دو سالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا تھا سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی ماہ وسال کے پنکھ لگا کر اپنی ایک مخصوص ڈگر پر...
کٹے گی اک نہ اک دن یہ شبِ غم دیکھتے رہنا خوشی کے ساز سے نکلیں گے سر گم دیکھتے رہنا قبولے گا خطا اپنی کبھی دل کی عدالت میں بنے گا ایک دن انسان یہ آدم دیکھتے رہنا وہ جس کے دم سے زخموں نے بہار جاوداں پائی ہمیں سے مانگن...
پھر ہوئے ہیں غبار آلودہ پائے دیوانگی جہاں میں ترے ہو گئے پھر نثار پروانے پھر بجھی پیاس شمعِ عالم کی پھر ہوائے ستم بہ کوئے جہاں نالہ شوق آبروئے دِلاں آبلہ ہائے نو بہ نو پھر سے بن گئے چشم ہائے مضطرباں ...
تم نے دیکھا نہیں دن جو نکلا تو خیمے اکھڑنے لگے شب کے جانے کی تیاری ہونے لگی رات سامان اٹھا کر نئی منزلوں کی طرف بڑھ گئی کوئی کوچہ نہیں کوئی آنگن نہیں جس میں شب کے سپاہی نظر آتے ہوں سب کے سب جا چکے تم نے دیکھا نہیں ...
اے مرے مرغے’ مرے سرمایہ تسکین جاں تیری فرقت میں ہے بے رونق مرا جہاں کون دے گا رات کے بارہ بجے اٹھ کر اذاں تیری فرقت میں یہ دل تڑپا’ جگر نے آہ کی کھاگئی تجھ کو نظر شاید کسی بد خواہ کی تجھ کو لایا تھا کراچی سے ک...
ستمبر 2021
چراغِ زندگی ہوگا فروزاں، ہم نہیں ہوں گے چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں، ہم نہیں ہوں گے جوانو! اب تمھارے ہاتھ میں تقدیرِ عالَم ہے تمہی ہو گے فروغِ بزمِ اِمکاں، ہم نہیں ہوں گے جئیں گے وہ جو دیکھیں گے بہاریں زُلفِ جاناں کی ...
شورشؔ گھر سے قبر تک اک مسافر تھا کچھ دیر ٹھہرا یہاں اپنی منزل کو آخر روانہ ہوا بات کل کی ہے محسوس ہوتا ہے یوں جیسے بچھڑے ہوئے اک زمانہ ہوا آہ ! کل تک تھا جو رونق زندگی آج شہر خموشاں کی زینت بنا جرأتوں ک...