دوسالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں
پچھلے سال بھی ایسی ہی اک
سرد دسمبر کی شب تھی جب
دو سالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا تھا
سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی
ماہ وسال کے پنکھ لگا کر
اپنی ایک مخصوص ڈگر پر
اڑتا ہے
دو سالوں کے سنگم پر میں
بیتی باتیں یاد کروں تو
ڈرتا ہوں
ڈرتا ہوں کہ جانے والے سال کا سورج
آنے والے سال کے پہلے سورج کو
اپنے تن کی ساری حدت بخش نہ دے
ڈرتا ہوں کہ
آنے والا موسم بھی
جانے والی زرد رتوں کا عکس نہ ہو
موسم گل کی صورت کے برعکس نہ ہو
صحنِ چمن میں شعلوں ہی کارقص نہ ہو
سوچ رہا ہوں پچھلے سال اس لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر
کیسے کیسے لوگ شریک ِ محفل تھے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
سوچ رہا ہوں اگلے سال اسی لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر
جب لکھے گا کوئی نظم تو سوچے گا
پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں