موسموں کی گرد ہونٹوں پرجمی رہ جائے گی
لب ہلے بھی توصداؤں کی کمی رہ جائے گی
رفتہ رفتہ ماند پڑ جائے گی آنکھوں کی چمک
زرد رخساروں پہ اشکوں کی نمی رہ جائے گی
پھول زلفوں میں سجیں یا قبر کی زینت بنیں
شاخساروں پر خزاں کی برہمی رہ جائے گی
کس نے سوچا تھا کہ ہو گا فکر کا سورج غروب
بے حسِی کی برف ذہنوں پر جمی رہ جائے گی
کِھل کے مرجھانا ہی ازہر جب تری تقدیر ہے
تو نہ چٹکا تو چمن میں کیا کمی رہ جائے گی