کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِبہاری’ راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سُوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے ’ اور سر ہے پائے ساقی پر
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایہ دیوار بیٹھے ہیں
کہاں صبر و تحمل ’ آہ ننگ ونام کیا شے ہے
یہاں روپیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں