نومبر 2004
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِبہاری’ راہ لگ اپنی تجھے اٹھکیلیاں سُوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں تصور عرش پر ہے ’ اور سر ہے پائے ساقی پر غرض کچھ ...