کسے خبر تھی کہ آنے والی رتوں کاہر پل اداس ہوگا
دلوں میں شعلے مگر بدن پرمنافقت کا لباس ہوگا
ہوس شرارے خلوص محلوں کو راکھ کرنے پہ تل گئے ہیں
نہ بچ سکے گا کوئی سلامت مگر جو آدم شناس ہوگا
وہ ابرو باراں کی وحشتیں ہوں کہ جان لیوا تمازتیں ہوں
زمیں میں جس کی جڑیں نہ ہوں گی وہی شجر بدحواس ہوگا
رقم کروں گا میں جس میں تیری سکون افزا ء رفاقتوں کو
مری کتاب ِ حیات کا وہ حسیں ترین اقتباس ہوگا
اگر تیرا دل گئی رتوں کی حسین یادوں کا آئینہ ہے
تو اب بھی دل کش حکائتوں کا کرن کرن انعکاس ہوگا
بھگا کے دم لے گا جگنوؤں کا جلوس اندھیروں کو اس نگر سے
چمن حصاروں ، بدن فصیلوں میں اب نہ خوف و ہراس ہوگا
خزاں رتوں کے عذاب لمحے گلاب چہروں کو ڈس رہے ہیں
بہار موسم پلٹ کے آیا بھی اب تو ازہرؔ اُداس ہو گا
٭٭٭
جس در سے دعائیں سبھی ہوتی ہیں ثمربار
وہ در ہے فقط میرے خداوند کا دربار
اے گردش ِ افلاک ذرا تو ہی بتا دے
کیوں ہونے لگا ابر ِکرم ہم پہ شرر بار
شیوہ ہے یہی اہل بصیرت کا ازل سے
حق بات کی خاطر وہ لٹا دیتے ہیں گھربار
کرنا نہ مری لاش کو ساحل کے حوالے
اے موج نہ ہو تیری طبیعت پہ اگر بار
بے حوصلہ تیمور سے بہتر ہے وہ چیونٹی
کوشاں ہے جو گر جائے گو دیوار سے ہر بار
کر عزمِ سفرعالمِ ایجاد سے ازہر
دنیا پہ بناکرتے نہیں اہلِ نظر بار
٭٭٭