غزلیں

مصنف : اذکار ازہر خان درانی

سلسلہ : غزل

شمارہ : ستمبر 2004

 

 
کسے خبر تھی کہ آنے والی رتوں کاہر پل اداس ہوگا
دلوں میں شعلے مگر بدن پرمنافقت کا لباس ہوگا

 

ہوس شرارے خلوص محلوں کو راکھ کرنے پہ تل گئے ہیں
نہ بچ سکے گا کوئی سلامت مگر جو آدم شناس ہوگا

 

وہ ابرو باراں کی وحشتیں ہوں کہ جان لیوا تمازتیں ہوں
زمیں میں جس کی جڑیں نہ ہوں گی وہی شجر بدحواس ہوگا

 

رقم کروں گا میں جس میں تیری سکون افزا ء رفاقتوں کو
مری کتاب ِ حیات کا وہ حسیں ترین اقتباس ہوگا

 

اگر تیرا دل گئی رتوں کی حسین یادوں کا آئینہ ہے
تو اب بھی دل کش حکائتوں کا کرن کرن انعکاس ہوگا

 

بھگا کے دم لے گا جگنوؤں کا جلوس اندھیروں کو اس نگر سے 
چمن حصاروں ، بدن فصیلوں میں اب نہ خوف و ہراس ہوگا

 

خزاں رتوں کے عذاب لمحے گلاب چہروں کو ڈس رہے ہیں
بہار موسم پلٹ کے آیا بھی اب تو ازہرؔ اُداس ہو گا
٭٭٭

 

جس در سے دعائیں سبھی ہوتی ہیں ثمربار
وہ در ہے فقط میرے خداوند کا دربار

 

اے گردش ِ افلاک ذرا تو ہی بتا دے
کیوں ہونے لگا ابر ِکرم ہم پہ شرر بار

 

شیوہ ہے یہی اہل بصیرت کا ازل سے 
حق بات کی خاطر وہ لٹا دیتے ہیں گھربار

 

کرنا نہ مری لاش کو ساحل کے حوالے 
اے موج نہ ہو تیری طبیعت پہ اگر بار

 

بے حوصلہ تیمور سے بہتر ہے وہ چیونٹی 
کوشاں ہے جو گر جائے گو دیوار سے ہر بار

 

کر عزمِ سفرعالمِ ایجاد سے ازہر
دنیا پہ بناکرتے نہیں اہلِ نظر بار
٭٭٭