طبیعت کواس انداز سفر سے آشنا رکھنا
ہوائے تندمیں چلنا ہتھیلی پر دیا رکھنا
ہمیں تو جب بھی ملتے ہیں، بس ایسے دوست ملتے ہیں
ہمار ا دوست بننا، دشمنوں سے رابطہ رکھنا
پہاڑوں کو اٹھا لینا بہت آساں ہے لیکن
بہت دشوار ہے ہونٹوں پہ حرف مدعا رکھنا
سمندر، موج طوفاں، ابرتیرہ، د وری ء ساحل
سفینہ پارہ پارہ دیکھنا اور حوصلہ رکھنا
کہیں اک روز ہم جاگیں تو سورج ہی نہ سر پر
حساب روشنی رکھنا، کرن کوئی بچا رکھنا
یہاں ہنستے ہوئے چہروں کے پیچھے زہر نفرت ہے
مسافر جب تک اس بستی میں رہنادل بڑا رکھنا
مناظر دوستوں کے ساتھ مل کر دیکھنا عاصی
مگر اپنا اک انداز نظر سب سے جدا رکھنا