فن کا روں کے نام

مصنف : احمد فراز

سلسلہ : غزل

شمارہ : اپریل 2007

 

تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چنی
خود اندھیری فضاؤں میں پلتے رہے
 
تم نے دنیاکے خوابوں کی جنت بنی
خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے 
 
تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سنی
اور خود عمر بھر خوں اگلتے رہے
 
جنگ کی آگ دنیا میں جب بھی جلی
امن کی لوریاں تم سناتے رہے 
 
جب بھی تخریب کی تند آندھی چلی
روشنی کے نشاں تم دکھاتے رہے 
 
آج اک اور برس بیت گیاا س کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے 
 
ق
 
کاش تو بھی میری آواز کہیں سنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے
 
کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل دکھانے کو میرے 
 
کاش اوروں کی طرح میں بھی کہہ سکتا
بات سن لی ہے میری آج خدا نے میرے 
 
توہے کس حال میں اے زود فراموش مرے
مجھ کو تو چھین لیاعہد وفا نے میرے 
 
تم نے دکھتے دلوں کی مسیحائی کی
اور زمانے سے تم کو صلیبیں ملیں
 
کاخ و دربار سے کوچہ دار تک
کل جو تھے آج بھی ہیں وہی سلسلے
 
جیتے جی تو نہ پائی چمن کی مہک
موت کے بعد پھولوں کے مرقد ملے
 
اے مسیحاؤ یہ خود کشی کب تلک
ہیں زمیں سے فلک تک بڑ ے فاصلے