تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چنی
خود اندھیری فضاؤں میں پلتے رہے
تم نے دنیاکے خوابوں کی جنت بنی
خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے
تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سنی
اور خود عمر بھر خوں اگلتے رہے
جنگ کی آگ دنیا میں جب بھی جلی
امن کی لوریاں تم سناتے رہے
جب بھی تخریب کی تند آندھی چلی
روشنی کے نشاں تم دکھاتے رہے
آج اک اور برس بیت گیاا س کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
ق
کاش تو بھی میری آواز کہیں سنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے
کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل دکھانے کو میرے
کاش اوروں کی طرح میں بھی کہہ سکتا
بات سن لی ہے میری آج خدا نے میرے
توہے کس حال میں اے زود فراموش مرے
مجھ کو تو چھین لیاعہد وفا نے میرے
تم نے دکھتے دلوں کی مسیحائی کی
اور زمانے سے تم کو صلیبیں ملیں
کاخ و دربار سے کوچہ دار تک
کل جو تھے آج بھی ہیں وہی سلسلے
جیتے جی تو نہ پائی چمن کی مہک
موت کے بعد پھولوں کے مرقد ملے
اے مسیحاؤ یہ خود کشی کب تلک
ہیں زمیں سے فلک تک بڑ ے فاصلے