غزل

مصنف : اذکار ازہر خان درانی

سلسلہ : غزل

شمارہ : جنوری 2005

 

تجھ کو پانے کی تمنا نے سمجھائے رستے
جب بھی الجھے ہیں مرے ذوقِ سفر سے رستے
 
منزلیں عزمِ مصمّم پہ فدا ہوتی ہیں
میں بھٹکتا تو مجھے راہ دکھاتے رستے
 
سادگی دیکھ کے منزل کے تمنّائی کی 
قریہ قریہ لیے پھرتے رہے اندھے رستے
 
ختم ہوتی ہی نہیں دشتِ جنوں کی وحشت
ہر نیا موڑ جنم دیتا ہے کتنے رستے
 
خیر مقدم کے لیے رہتے ہیں جو چشم براہ
خوش نصیبوں کو ملا کرتے ہیں ایسے رستے
 
کتنی راہوں پہ لگائے گا زمانہ قدغن
تیرے کوچے کی طرف جاتے ہیں سارے رستے
 
ہمسفر پہ بھی لٹیرے کا گماں ہوتا ہے
پیش خیمہ ہیں قیامت کا یہ دھندلے رستے
 
جن پہ چل کر ہمیں چلنے کا سلیقہ آیا
زندگی بھر نہیں بُھولیں گے وہ کچّے رستے
 
لُٹ گئی عصمتِ اقدار وشرافت ازہرؔ
کاش جاتے نہ مرے گاؤں کو پکّے رستے