پیاس بخشی ہے تو پھر اجر بھی کھل کر دینا
ابر مانگے مری دھرتی تو سمندر دینا
اپنی اوقات سے بڑھنا مجھے گم کر دے گا
مجھ کو سایہ بھی مرے قد کے برابر دینا
یہ سخاوت مرے شجرے میں لکھی ہے پہلے
اپنے دشمن کو دعائیں تہِ خنجر دینا...!
دیکھنا ہیں مرے جوہر تو مرے عدل پناہ
حوصلہ مجھ کو، مرے غیر کو لشکر دینا
میرے خالق میری آنکھوں کو جو نم رکھتا ہے
اس کے صحرا کو بھی دریاؤں کے تیور دینا
شہر والو، کبھی اعزاز جو تقسیم کرو!
مجھ کو شیشے کا لبادہ’ اسے پتھر دینا
یاد آئے جو مرے بعد سنورنا اس کو
اسے شب ہجر، اسے چاند کا جھومر دینا!
کربِ محسنؔ کی مسافت کے خداوند جلیل!
خاک زادوں کو سدا بختِ سکندر دینا