جب کوئی کلی صحن گلستان میں کھلی ہے

مصنف : حبیب جالب

سلسلہ : غزل

شمارہ : جون 2007

 

جب کوئی کلی صحن گلستان میں کھلی ہے
شبنم میری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے
 
جس کی سر افلاک بڑی دھوم مچی ہے
آشفتہ سری ہے ، مری آشفتہ سری ہے
 
اپنی تو اجالوں کو ترستی ہیں نگاہیں
سورج کہاں نکلا ہے ، کہا ں صبح ہو ئی ہے
 
بچھڑی ہوئی راہوں سے جو گزرے ہیں کبھی ہم
ہر گام پہ کھوئی ہوئی اک یاد ملی ہے

 

اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے
 
ہنسنے پہ نہ مجبور کرو، لوگ ہنسیں گے 
حالات کی تفسیر تو چہرے پہ لکھی ہے
 
مل جائیں کہیں وہ بھی تو ان کو بھی سنائیں
جالب یہ غزل جن کے لیے ہم نے کہی ہے
٭٭٭
مہتا ب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں
ہم محو تماشائے سر راہ گزر ہیں
 
حسرت سی برستی ہے در و بام پہ ہر سو
روتی ہوئی کلیا ں ہیں ، سسکتے ہوئے گھر ہیں
 
آئے تھے یہاں جن کے تصور کے سہارے 
وہ چاند ، وہ سورج، وہ شب و روز کدھر ہیں
 
سوئے ہو گھنی زلف کے سائے میں ابھی تک
اے راہرواں ،کیا یہی انداز سفر ہیں
 
بک جائیں جو ہر شخص کے ہاتھوں سر بازار
ہم یوسف و کنعاں ہیں نہ ہم لعل و گہر ہیں
 
ہم لوگ ملیں گے تو محبت سے ملیں گے
ہم نزہت مہتاب ہیں، ہم نور سحر ہیں
٭٭٭