غزل

مصنف : مرغوب حسین طاہر

سلسلہ : غزل

شمارہ : دسمبر 2006

 

تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا 
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
 
دیکھ کر پرندوں کو ، باندھنا نشانوں کا 
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
 
تم ابھی نئے ہو ناں ، اس لیے پریشاں ہو
آسماں کی جانب اس طرح سے مت دیکھو
 
آفتیں جب آنی ہوں ، ٹوٹنا ستاروں کا 
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
 
اجنبی فضاؤں میں ، اجنبی مسافر سے 
اپنے ہر تعلق کو دائمی سمجھ لینا!!
 
اور جب بچھڑجانا ، مانگنا دعاؤں کا 
ریت اس نگرکی ہے اور جانے کب سے ہے
 
شہر کے یہ باشندے ، نفرتوں کو بو کر بھی
انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کی
 
بھول کر حقیقت کو ، ڈھونڈنا سرابوں کا
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
 
خامشی میرا شیوہ ، گفتگو ہنر اس کا
میری بیگناہی کو لوگ کیسے مانیں گے
 
بات بات کے اوپر مانگنا حوالوں کا 
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے