آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے’ پسِ دیوار گرے
ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں’ ہاتھ سے پتوار گرے
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایہ دیوار پہ دیوار گرے
تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بیکار گرے
کیا ہوا ہا تھ میں تلوار لیے پھرتی تھی
کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے
دیکھ کر اپنے دروبام ’ لرز جاتا ہوں
میرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
وقت کی ڈو ر خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
ہم سے ٹکر ا گئی خود بڑھ کر اندھیرے کی چٹان
ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ’ نا چار گرے
کیا کہوں د یدۂ تر ’ یہ تو مرا چہر ہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں’بارش کی جہاں دھار گرے
ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے
وہ تجلّی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے تیر
آئنے ٹوٹ گئے ’ آئنہ بردار گرے
دیکھتے کیوں ہو شکیب اتنی بلند ی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستا ر گرے